آپ موّحد صوفیہ میں سے تھے اور گجرات میں قیام پذیر تھے۔ علوم ظاہر و باطن کے عالم تھے اور صاحب تصانیف و تالیفات تھے۔ تفسیر رحمانی آپ ہی کی تالیف ہے اور اِوّلۃ التوحید کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا تھا جو بڑا مشہور ہوا۔ آپ ۸۳۵ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ دین نبی و پیر و علی سال وصلش چو از خر وجستم بود عالی وَلی گجراتی گفت کامل علی گجراتی ۸۳۵ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
صاحب ورع و تقوی بزرگ تھے علوم حدیث تفسیر میں یگانہ روزگار تھے۔ بیس سال میں ہی مختلف اقسام کے علوم مروّجہ پر دسترس حاصل کرلی تھی۔ اور سلسلۂ تدریس جاری کردیا تھا۔ آپ کی تصانیف میں سے شرح قطبی سراجی بہت مشہور کتابیں ہیں۔ آج تک درسیات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ تفسیر کشفاف پر (اسرارالتنزیل)حاشیہ لکھا۔ آپ کی ولادت ۷۴۰ھ میں ہوئی مگر وفات ۸۱۸ھ میں ہوئی۔ اشرف و اکرم شریف دوجہاں ہست تولیدش خلیل اہل دل ۷۴۰ھ زینت اسلام پیر دین حنیف رحلتش سید ولی حق شریف (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ حضرت امیر کبیر ہمدانی کے فرزند ارجمند اور خلیفہ اعظم تھے آپ اپنے والد کی وفات کے بائیس (۲۲) سال بعد خطہ کشمیر میں وارد ہوئے اور بارہ سال تک ہدایت خلق میں مشغول رہے اور اسلام کی اشاعت و ترویج میں مصروف رہے سلطان قطب الدین اور سلطان سکندر بت شکن آپ کے حلقۂ اطاعت میں رہتے تھے سیّدہ صالحہ بی بی تاج خاتون جو حضرت حسن بہادر کی بیٹی تھیں آپ کے نکاح میں آئیں آپ کی رفافت صرف پانچ سال رہی تو وفات پاگئیں سلطان قطب الدین کے وزیر مملکت ملک سبہہ (جو آپ کے دستِ حق پرست پر ایمان لایا تھا) کی بیٹی آپ کے عقدثانی میں آئی آپ نے بادشاہ کے لیے ایک رسالہ لکھا تھا جو علم تصوّف پر مشتمل تھا۔ منطق کی ایک کتاب سلطان کے لیے لکھی یہ کتاب رات بھر میں لکھی گئی تھی آپ کی کوششوں سے اسلامی تہذیب نے اس قدر ترقی کی تھی کہ سارے کشمیر میں مزامیر اور لعو و لعب کی محفلیں بند ہوگئیں تھیں۔ دربار سلطانی کے علاوہ ڈھول کی ص۔۔۔
مزید
آپ شیخ اسماعیل قدس سرہٗ کے مرید تھے حضرت شیخ اسماعیل شیخ نورالدین غزالی کے احباب میں سے تھے جو شیخ کمال خخبدی کے مصاحب تھے مولانا شرین بڑے صاحب تقوی اور ورع بزرگ تھے آپ کے اشعار حقایٔق و دقائق سے پُر تھے مغربی تخلص تھا۔ یہ ان کا ایک مشہور شعر درج کیا جاتا ہے۔ چشم گراین ست ابروئے این نازو آن وعثوہ این الوداع اے زہدو تقویٰ الفراق اے عقل و دین آپ کا وصال ۸۰۹ھ میں ہوا۔ ایک قول میں ۸۰۸ھ میں ہوا جبکہ آپ کی عمر ساٹھ سال تھی۔ چو شرین رخت از دنیائے دوں بست وصالش ہست شرین قطب واصل ۸۰۸ھ دو بارہ ہادی حق قطب شرین ۸۰۹ھ بحنت یافت از درگاۂِ حق بار دگر از دل ندا شد ناج ابرار ۸۰۸ھ رقم شد رحلت آن شیخ حق یار ۸۰۹ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ بڑے عالی ہمت بزرگ تھے آداب شریعت اور مقامات طریقت کی حفاظت کرتے تھے علوم ظاہری اور باطنی میں طاق تھے۔ ترک و تجرید میں معروف تھے صرف و نحو فقہ و حدیث اور تفسیر کے علاوہ منطق معقولات و معانی میں یدطویٰ رکھتے تھے مختصر معانی اور مطوّل آپ کی مشہور تصانیف ہیں آپ ۸۰۸ھ میں فوت ہوئے تھے۔ جناب شیخ سعدالدین اسعد جو جستم سالِ ترحیلش ز ہاتف کہ بود او عالم و عامل بہشتی ندا آمد بگو کامل بہشتی ۸۰۸ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ بہت بڑے بزرگ اور صاحب حال تھے ظاہری طور پر لباس شعراء میں گزارا۔ مگر حقیقت میں صاحب عرفان تھے۔ ایک دفعہ دریا میں سخت طغیانی آئی آپ جس گاؤں میں سکونت پذیر تھے موجوں کی زد میں آگیا لوگوں کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ دریا گاؤں کو بہا لے جائے گا آپ کے پاس صورت حال بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا۔ میرا خیمہ دریا کے کنارے لگایا جائے ان شاء اللہ دریا ہٹ جائے گا ایسا ہی کیا۔ پانی اپنی جگہ سے ذرہ بھر آگے نہ بڑھا سفینۃ الاولیاء کے مولّف نے آپ کا سن وفات ۸۰۳ھ لکھا ہے مگر تذکرۃ العاشقین نے ۸۰۲ھ لکھا ہے آپ کا مزار پر انوار تبریز میں واقع ہے۔ شیخ کامل کمال دین نبی گفت دل بہر سال ترحیلش ہم قبول دگر رقم کردم بود اہل جمال و جاہ و جلال گوز ہے آفتاب بدر کمال ۸۰۳ھ منغ حسن ماہتاب جمال ۸۰۲ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ ظاہری اور باطنی علوم میں جامع تھے زہدوتقوی اور ورع میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے حضرت شیخ سیف الدین خلوتی سے نسبت ارادت رکھتے تھے آپ ہی کی خدمت میں پندہ سال گزار دئیے قرأت قرآن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے قرآن پاک کو اسناد کے ساتھ پڑھا ہے اور حضور نبی کریمﷺ کو خواب میں زیارت کی تھی آپ نے فرمایا ظہیرالدین مجھے قرآن سناؤ میں نے اوّل سے آخر تک حضور کو قرآن سنایا ہے حضور نے مجھے اس عظمت پر آفرین فرمائی تھی۔ آپ چلّہ میں بیٹھتے تو ہر دسویں دن آپ گندم سے افطاری فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی وفات ۸۰۰ھ میں ہوئی تھی اپنے پیر و مرشد کے مزار کے پہلو میں قبرستان خلوتیاں میں دفن ہوئے تھے آپ کے پیر سیف الدین خلوتی شیخ محمد خلوتی کے مرید تھے کہتے ہیں جب آپ خوارزم میں ذکر بالجہر کرتے تو چار میل تک آواز جایا کرتی تھی ان کا وصال ۷۸۳ھ میں ہوا تھا اور مزار مبارک گورستا۔۔۔
مزید
آپ کا مسکن خطۂ پاک شیراز تھا لسّانِ الغیب اور ترجمان الاسرار کے القاب سے مشہور تھے آپ کی زبان حق ترجمان سے اسرار غیبیہ کا ظہور ہوتا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن جامی لکھتے ہیں کہ آپ کے پیر و مرشد کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ اور سلسلہ تصوف میں کسی طائفہ صوفیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ نے جس انداز سے صوفیانہ گفتگو فرمائی ہے اسے کسی سلسلہ کے بزرگ کو اختلاف نہیں ہوسکا صوفیہ کے تمام سلسلوں کے بزرگان دین متفق ہیں کہ حافظ شیرازی کے پائے کا دیوان آج تک کسی صوفی کے قلم نے مرتب نہیں کیا دنیا بھر کے مفکرین آپ کو صاحب کشف و کرامات مانتے ہیں کوئی شخص حالات آئندہ سے واقف ہونا چاہتا ہو تو اسے حضرت حافظ پر فاتحہ پڑھ کر اور پوری توجہ اور عقیدت سے دیوان حافظ کھولے سب سے پہلے جو شعر سامنے آئے اس سے فال برآمد ہوگی۔ شہزادہ داراہ شکوہ اپنی کتاب سکینتہ الاولیاء میں تحریر فرماتے ہیں کہ جہانگیر بادشاہ اپنے والد کی آز۔۔۔
مزید
اسم گرامی شیخ علی بن شیخ ابوبکر بن شیخ احمد بن شیخ محمود بن شیخ سہیل تائبادی تھا۔ موضع تائبا و جام کے قریب ہی ایک قصبہ تھا آپ ظاہری علوم میں حضرت شیخ نظام الدین ہروی کے شاگرد تھے لیکن وہ لگاتار اتباع سنت اور ریاضت کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے علوم باطن کے دروازے کھول دئیے آپ صاحب کرامات اور خوارق عالیہ ہوگئے حضرت شیخ جام کے اویسی تھے آپ حضرت جام کے روضہ مبارکہ کی زیارت کے لیے سر برہنہ اور پا پیادہ جایا کرتے تھے۔ حضرت خواجہ نقشبندی بہاءالدین قدس سرہٗ آپ کی ملاقات کو گئے تو آپ نے پوچھا حضرت خواجہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے آپ نے بتایا مجھے بہاء الدّین نقشبندی کہتے ہیں فرمانے لگے میرے لیے بھی نقشبندی فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا میں تو آپ سے نقش لینے آیا ہوں دونوں بزرگ ایک عرصہ کے لیے ہم مجلس اور ہم صحبت رہے۔ حضرت مولانا زاہد مرغابی سے تیمور بادشاہ کو بے عقیدت تھی جس مہم پر جاتا آپ سے دعا کا طال۔۔۔
مزید
آپ بلند مقامات اور ارجمند کرامات کےمالک تھے سادات عظام حسینہ سے تعلق رکھتے تھے اپنے وقت کے شیخ المشائخ اور قطب الاقطاب تھے آپ کی نسبت شیخ اوحدالدین اصفہانی سے تھی پہلے آپ گاز رون میں سکونت فرما تھے۔ مگر اشارہ غیبی سے لاہور وارد ہوئے۔ ایک طویل عرصہ خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہے آپ سے خوارق و کرامات کا ظہور ہوتا رہا۔لاہور کے علماء کرام اور مشائخ عظام آپ کے حلقہ عقیدت میں بیٹھتے اور فیض پاتے ظاہری اور باطنی مہمات کے حل کے لیے آپ کی صحبت نہایت کارگر ثابت ہوا کرتی تھی۔ تحفۃ الواصلین کےمولّف لکھتے ہیں کہ آپ کے حلقہ میں جو بھی ایک بار آتا۔ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ فیض پا لیتا ایک دن لاہور کا ایک متمول آدمی آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ وہ شخص اپنی دولت کے غرور میں کسی کو خاطر میں نہ لایا کرتا تھا۔ آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تو وہ غصہ سے آپ کی شان میں گالیاں بکنے۔۔۔
مزید