آپ سید عالی نسب تھےا ور سیّد شریف جرجانی قدس سرہٗ کی اولاد میں سے تھے۔ آپ علوم شریعت طریقت میں کامل تھے۔ عالم و عامل تھے شیخ عبدالحی اسم گرامی تھا۔ آپ کی وفات ۸۸۳ھ میں ہوئی تھی لیکن بعض تذکرہ نگاروں نے ۸۸۹ھ لکھی ہے ہمارے نزدیک پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اخبار الاخیار کے مولّف نے یہ قطعہ تاریخ لکھا ہے۔ نادر العصر شیخ عبدالحی وقت مزعت بسر رسیدم من سالِ تاریخ خویش خود فرما گفت تاریخ من بود نامم کہ بوصفش مرازباں بنود گفتم اے چوں تو در زمان بنود کہ جُز او درد درجہاں بنود بندۂ و قتیکہ درمیاں بنود ان اشعار میں سے اگر لفظ عبدالحی کے اعداد ۹۵۹ نکلتے ہیں۔ ان میں سے عبد کے اعداد ۷۶ نکال دیئے جائیں تو ۸۸۳ھ نکلتے ہیں۔ زندہ دل پیر شیخ عبدالحی رحلتش جو ز منعم مخدوم رفت چوں ازجہاں بحنت طاق بار دیگر ز طالب مشتاق ۸۸۳ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ سید حَسن تقی کشمیری کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ نے بابا جلال کشمیری سے فیض پایا تھا۔ آپ ظاہری علوم اور تربیت سے فارغ ہوئے اور جوانی میں قدم رکھا۔ کہ والی کشمیر سلطان زین العابدین نے اپنی بیٹی کی شادی آپ نے کرنا چاہی۔ مگر آپ تارک الدنیا ہوکر وہاں سے چلے گئے اور پہاڑ کی ایک غار میں گوشہ نشین ہوکر یاد خدا وندی میں مشغول ہوگئے اور اس طرح آپ ظاہری اور باطنی کمالات پر پہنچے۔ جس وقت سلطان زین العابدین نے جھیل وُلر کے درمیان بمقام لنک پر ایک بلند عمارت تعمیر کی تو کشمیر کے عوام و خواص کو ایک بڑی دعوت پر بلایا۔ اس مجلس میں حضرت میربھی مدعو کئے گئے۔ مگر وہاں بعض حضرات کی نامشروع حرکات دیکھ کر بڑے کبیدہ خاطر ہوئے غصّے کے عالم میں دریا میں چھلانگ لگادی بادشاہ نے ملاحوں اور غوطہ خوروں کو حکم دیا کہ آپ کو نکالا جائے مگر تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ انہوں نے جس قدر تلاش کی آپ نہ مل سکے اس صورتِ حال سے۔۔۔
مزید
آپ کے والد کا اسم گرامی محمد تھا۔ تو شیخ میں سکونت رکھتے علاءالدین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ نے تفسیر کشاف پر حاشیہ لکھا۔ جو مقبول عوام و خواض ہوا۔ آپ کا وصال ۸۸۷ھ میں ہوا۔ پر تو افگن شد بخلد جاوداں جنّت عالی قدر تاریخ او ۸۷۸ھ چوں علی اعلیٰ وحی مہتاب حسن ہم علاء الدین علی مہتاب حسن ۸۷۸ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ بلند پایۂ محدثین اور معروف مفسرین میں شمار ہوتے تھے نصف جلالین شریف آپ کی تالیف ہے(یاد رہے کہ تفسیر جلالین دو بزرگوں جن کے نام جلال الدین تھے تالیف کی تھی) آپ کی وفات ۸۶۴ھ میں ہوئی۔ چوں جلال الدین شہِ اہل جلال آفتاب نقر تاریخش بگو کرد رحلت ازفنائے سوئے بقا ہم جلال الدین امیر مجتبیٰ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ ہرات کے عظماء مشائخ میں سے ہیں ہرات کے نواح میں ایک قصبہ کوسو ہے آپ کی ولادت اسی قصبہ میں ہوئی تھی۔ آپ شیخ احمد جام کی اولاد میں سے ہیں۔ سفینۃ الاولیاء کے مولّف فرماتے ہیں کہ شیخ احمد جام نے وہ خرقۂ خلافت جو انہیں ابوسعید ابوالخیر قدس سرہٗ سے ملا تھا۔ خواجہ شمس الدین کو عطا کردیا۔ اس خرقہ میں حضور نبی کریمﷺ کے پیراہن مبارک کا ایک ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ اس خرقۂ مبارک سے کئی قسم کی کرامات اور برکات کا ظہور ہوا تھا۔ حضرت شیخ احمد جام کی اولاد میں سے ہر ایک اس خرقۂ مبارکہ کا دعویٰ دار بنا۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹ لیا جائے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ جو بھی اُسے ہاتھ میں لیتا وہ غائب ہوجاتا تھا۔ آخر کار خواجہ شمس الدین نے اٹھایا تو آپ کے ہاتھ میں محفوظ رہا۔ خواجہ شمس الدین صبح سے شام تک شیخ زین الدین کے طریقہ پر ذکر باالجہر میں مصروف رہتے آپ کو شیخ بہاء الدین کی مجلس می۔۔۔
مزید
آپ کو شیخ الاولیاء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ آپ شیخ مظفر بلخی کے خلیفہ تھے آپ کا سلسلۂ طریقت پانچ واسطوں سے شیخ نجم الدین سے جا ملتا ہے۔ بعض اوقات شیخ جمال اپنے سر پر کھچڑی کا طباق اٹھائے جہاں کہیں کوئی بھوکا یا بیمار آدمی دیکھتے اسے کھانا کھلاتے ایک دن شاہ موسیٰ عاشقانِ اودھی کے گھر تین روز سے فاقہ تھا۔ شیخ جمال گوجر کھچڑی کا دیگچہ سر پر اٹھائے ان کے گھر جاپہنچے۔ شاہ موسیٰ نے ان کی اس تواضع کو دیکھتے ہوئے فرمایا۔ جزاک اللہ فی الدارین خیرا۔ اے جمال۔ اگرچہ تم گوجروں کو طرح سر پر دودھ کا مٹکہ اٹھائے کھانا تقسیم کرتے پھرتے ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تم عشق تقسیم کر رہے ہو۔ اس دن سے آپ کو گوجر کے لقب سے یاد کیا جانے لگا (حقیقت میں آپ گوجر قوم سے تعلق نہیں رکھتے تھے)۔ آپ بڑے عالی مقام بزرگ تھے۔ اپنے پیرومرشد کی مرضی کے مطابق رہائش رکھتے تھے۔ شاہ موسیٰ عاشقان حاجی شیخ چراغ ھند شیخ فتح اللہ ۔۔۔
مزید
آپ بابا اسحاق مغربی کے خلیفہ نامدار تھے۔ گجرات کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ صاحب معارج الولایٔت فرماتے ہیں کہ شیخ احمد کتھو کے پیر و مرشد بابا اسحاق میرٹھ کی طرف آئے دریائے جون (جمنا) کے کنارے ایک قوت کے درخت کے نیچے چند روز یاد خدا وندی میں گزارے ایک دن میرٹھ کا ایک دولت مند ہندو مہش نامی جس نے زنّار پہنا ہوا تھا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چونکہ وہ بے اولاد تھا۔ اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا تمہیں یاحی یاقیوم کے نام کی برکات سے پانچ بیٹے نسیب ہوسکتے ہیں مگر تمہیں پہلا بیٹا مجھے دینا ہوگا۔ اسحاق قدس سرہٗ ہندوستان سے خراسان چلے گئے اور وہاں کئی سال رہے ایک عرصہ کے بعد دہلی واپس آئے اور آپ کی کرامت و ولایٔت نے بڑی شہرت حاصل کی کچھ دنوں بعد آپ میرٹھ گئے اور توت کے اسی درخت کے نیچے جو اب تک خشک ہوچکا تھا قیام فرما ہوئے درخت آن واحد میں سر سبز ہوگیا جس سے ہر دیکھنے والے متحیر۔۔۔
مزید
آپ کشمیر کے برگزیدہ بزرگان دین میں سے تھے جامع علوم ظاہری باطنی مظہر تجلیات صوری و معنوی تھے۔ زہدو ورع تقویٰ و عبادت میں یگانہ و طاق تھے۔ ریاضت و مجاہدہ اور خلق خدا کی خدمت میں شہرۂ آفاق ہوئے ہیں۔ تیس سال کی عمر میں توبہ نصیب ہوئی اور زہدو ریاضت کی وجہ سے متقدمیں اور متاخریں کے لیے باعث صد افتخار ہے۔ جب پہلے پہل آپ کو اللہ کی محبت کے جذبہ نے اپنی طرف کھینچا تو آپ بارہ سال تک بلا کھائے پیئے اور بلا سوئے صحراء و بیابان میں ریاضت میں مشغول رہتے تھے جب بھوک ستاتی کاسنی کے پتے پانی میں جوش دے کر پی لیتے تاکہ جان کا سلسلہ قائم رہ سکے پھر اتنا کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ اور صرف دودھ کا ایک گلاس غذا بنائی نفس کی خواہشات کے برعکس کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے دودھ کو نفس کی خواہش جانتے ہوئے چھوڑ دیا۔ اور اڑھائی سال تک آب جوہر اکتفا کیا چھبیس سال تک غلّہ چکھا تک نہیں جب حضرت میر محمد بن سید می۔۔۔
مزید
آپ کی کنیت ابو بکر تھی۔ ظاہری اور باطنی علوم میں جامع تھے اوّل سے آخر تک اللہ کی توفیق حاصل ہوئی اور جادہ شریعت اور راۂِ سُنت پر گامزن رہے۔ طریقت میں شیخ نورالدین عبدالرحمان قریشی مصری قدس سرہٗ کے مرید ہوئے وہ شیخ سیف نورانی کے مرید تھے اور وہ شیخ تاج الدین حسن شمشیری اور وہ شیخ محمود اصفہانی اور وہ شیخ عبدالصمد نظیری اور وہ شیخ علی برغش اور وہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید تھے رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کیتے ہیں آپ کو آخرین عمر میں ایسا جذب حاصل ہوا کہ رات بھر اپنے آپ سے بھی غائب رہتے اور خاموش پڑے ہوتے آپ ہفتہ کی رات ۸۳۸ھ میں واصل بحق ہوئے۔ پہلے آپ کو قصبہ بالین میں امانتاً دفن کیا گیا۔ پھر آپ کی نعش کو درویش آباد میں لے جاکر دفن کیا گیا۔ پھر وہاں سے بھی ہرات کی عیدگاہ کے پاس سپرد خاک کیاگیا آپ کے مزار گوہر بار پر ایک عالی شان عمارت بنائی گئی تھی۔ جناب پیر زین الدین شیردین۔۔۔
مزید
فرد زمانہ اور فاضل یگاننہ تھے۔ دکن کے علاقہ مہایٔم میں سکونت پذیر تھے تفسیر مہایٔم آپ کی تالیف ہے جو اہل علم میں مقبول ہوئی۔ آپ کی وفات ۸۳۵ھ میں ہوئی۔ شد ز دنیا چو در بہشت بریں گود صالش علی عدیم المثل ۸۳۵ھ والی ملک دین علی ولی ہم بخواں زبدۂ بہشت علی ۸۳۵ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید