آپ اولیاء عظام لاہور میں شمار ہوتے تھے۔ والد محترم کے وصال کے بعد مسندِ ارشاد پر بیٹھے۔ اور ایک کثیر مخلوق آپ کے حلقۂ ارادت میں آئی ۱۰۰۴ھ کے آخر میں فوت ہوئے۔ اور اپنے والد کے مزار کے پہلو میں دفن ہوئے۔ نواب محمد زمان خان نے جو امرائے مغلیہ میں بڑے جلیل القدر امیر تھے۔ آپ کے مزار پر گنبد بنایا۔ چوں محمد غوث از دار فنا جامع فیض است تاریخش بگو ۱۰۰۴ھ کرد رحلت رفت در دارجناں تاج کامل سید الابرار خوان ۱۰۰۴ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ شیخ حسین خوارزی کے خلفاء میں سے تھے۔ شیخ محمد شریف کبروی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ ۹۹۹ھ میں خوارزم سے کشمیر آئے اور حضرت امیر کبیر ہمدانی قدس سرہ کی خانقاہ میں قیام پذیر ہوئے۔ اور مرجع خاص و عام بن گئے آپ کا جذب و استغراق اس حد تک تھا کہ نماز کے دَوران رکعتوں کی تعداد یاد نہ رہتی تھی۔ جس وقت مرزا یاد گار ایک بہت بڑا ہجوم لےکر بادشاہ اکبر سے مقابلہ کے لیے نکلا تو خطۂ کشمیر میں بڑی خونریز جنگیں شروع ہوگئیں تھیں۔ حضرت شیخ بابا ولی نے مرزا یاد گار کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے خطۂ کشمیر کی سلطنت شہنشاۂ اکبر کے نام لکھ دیا ہے۔ اس مقابلہ اور مجاہدہ اللہ کی قضا سے لڑنا ہے آپ کو ایسے اقدام سے باز آنا چاہیئے اور مسلمانوں کو خونریزی سے بچانا چاہیئے دوسرے طرف آپ نے اکبر کے مقرر کردہ حاکم کشمیر کو لکھا کہ میں تمہیں فتح اور کامیابی کی بشارت دیتا ہوں۔ مرزا یاد گار آپ کی اس نصیحت پر بڑا غصہ آیا۔۔۔
مزید
حضرت شیخ وجیہہ الدین گجراتی علیہ الرحمۃ آپ علوی بزرگ تھے مشائخ متاخرین میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ظاہری علوم میں اتنی استعداد رکھتے تھے۔ کہ بہت سی درسی کتابوں پر حواشی لکھے گئے اور شرحیں لکھیں اگرچہ آپ کی نسبت دوسرے سلاسل سے بھی تھی لیکن تربیت و تکمیل اجازت و خلافت طریقہ شطاریہ سے حاصل کی اور سید محمد غوث گوالیاری سے روحانی فیض پایا۔ کہتے ہیں کہ جب شیر شاہ سوری نے سید محمد غوث گوالیاری پر اس بنا پر سختی کرنا شروع کی کہ بادشاہ ہمایوں آپ کا عقیدت مند تھا۔ تو آپ گوالیار کو خیر باد کہہ کر گجرات تشریف لے آئے علماء نے بھی آپ کے رسالۂ معراج نامہ پر اعتراض کیے۔ اور بڑی مخالفت شروع کردی۔ ایک محضر نامہ لکھ کر بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ ان علماء کرام میں شیخ علی متقی قدس سرہ جو ظاہری اور باطنی علوم سے واقف تھے۔ ان علماء کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے اس قتل نامہ پر دستخط ثبت کیے تھے۔ بادشاہ نے آپ کو قتل کرنے۔۔۔
مزید
آپ صاحب ریاضت عبادت تھے اور سالک عارف تھے۔ صورت و سیرت میں درویش تھے۔ ساری عمر ریاضت اور مجاہدہ میں گذار دی۔ بڑے صاحب ذوق و شوق اور عشق خداوندی میں ثابت قدم تھے بعض اوقات صحراء کے پرندوں کے آواز یا کسی بانسری کی لے پر وجد میں آجایا کرتے تھے۔ اور حق و ھو کے نعرے بلند کرتے۔ آپ ماورالہنر کے رہنے والے تھے۔ کئی سال تک حرمین الشریفین کے مجاور رہے افغانوں کے آخری دنوں ہندوستان میں آئے اور برصغیر کے مشائخ کی مجالس میں رہے۔ ۹۹۷ھ میں واصل بحق ہوئے۔ حضرت درویش واعظ راہنما رفت چوں آخر ازین دار فنا بود شیخ اہل حال و اہل قال واعظ ہادی بگو تاریخ سال ۹۹۷ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ ظاہر و باطن میں عالم اور واعظ تقریر میں بے نظیر تھے آپ مجالس وعظ میں قرآن پڑھتے تو لوگ بے قرار ہوجایا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص سر پر بھاری بوجھ اٹھائے ہوتا۔ یا اسے ضروری کام کے لیے جانا ہوتا۔ تو آپ کی تقریر سن کر رک جاتا اور اسے اپنے بوجھ اور سفر کا احساس تک نہ رہتا۔ وقت کے اکابر علماء صلحاء کی مجلس وعظ میں حاضری دیتے۔ آپ لاہور میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد منہاج الدین لاہور سے دہلی آئے اور بڑی محنت سے علم دین حاصل کیا۔ اور دہلی کے مفتی مقرر ہوئے پھر دہلی میں مستقل قیام کرلیا۔ مولانا شعیب کے والد گرامی مولانا منہاج شہر میں تعلیم حاصل کرتے آٹا اور تیل شہر کے لوگوں سے جمع کرتے اور ساری رات مطالعہ کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا۔ کہ آٹے سے دیا بناتے اس میں تیل ڈال کر مطالعہ کرتے اور علی الصباح اسی آٹے کو روٹی پکا کر ناشتہ کرلیا کرتے یہ طریقہ علم تحصیل اور توکل میں عجیب و غریب تھا۔ جس درویش ۔۔۔
مزید
ملک زین الدین اور ملک وزیرالدین دونوں بھائی تھے جو اپنے زمانے کے نیک اور سخّی مرد تھے۔ تقوی اور ورع عبادت و ریاضت میں بے مثال تھے۔ اخبار الاخیار کے مصنف لکھتے ہیں۔ ملک زین الدین ہمیشہ کھڑے ہوکر تلاوت قرآن پاک کیا کرتے آپ نے قرآن پاک کے لیے اونچی سی رِحل بنوائی ہوئی تھی۔ جو آپ کے سینے تک آتی۔ اگر انہیں نیند کا غلبہ ہوتا تو چھت سے ایک بندھا ہوا رسا گردن میں ڈال دیتے جھٹکا لگتا تو بیدار ہوجاتے آپ کے اہل خانہ اور ملازمین بھی آدھی رات کے وقت اٹھتے اور نماز تہجد میں مشغول ہوجایا کرتے وقت چاشت تک ذکر و وظائف میں مشغول رہتے۔ جمعرات کو حضور نبی کریمﷺ کے روح پُر فتوح ایک سو سیر چاولوں پر قُل ھو اللہ پڑھاتے۔ ان چاولوں کوپکاتے اور نیاز ادا کرتے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کے میلاد پاک کی تقریب پر یکم سے لے کر ایک ہزار تنگہ جمع کرتے جاتے۔ بارہ ربیع الاوّل تک بارہ ہزار ہزار تنگہ جمع ہوجاتا۔ پھر یہ روپیہ ۔۔۔
مزید
آپ عظماء مشائخ اور کبریٰ علماء میں سے شمار ہوتے تھے چندیری کے نواح میں رہتے تھے۔ دعوت آیات قرآنی اور اسمائے الہیّہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ جمعہ کے دن اسی علم کی قوت سے بادشاہ وقت کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتے تھے۔ اور اپنے پاس بٹھا کر مسلمانوں کے مسائل حل فرماتے آپ کے پاس ایک ایسی تسبیح تھی۔ اس کا ایک دانہ ہلاتے تو بادشاہ حرکت میں آجاتا۔ دوسرا دانہ گراتے تو بادشاہ سواری کا حکم دیتا۔ تیسرا دانہ گراتے تو بادشاہ سوار ہوجاتا۔ ہردانہ گراتے جاتے اور کہتے جاتے اب بادشاہ وہاں پہنچا ہے۔ اب وہاں آگیا ہے۔ چالیس دانے گرتے تو بادشاہ آپ کے دروازے کے سامنے ہوتا۔ ایک دن آپ وضو فرما رہے تھے آپ کا ایک غلام جو ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتا تھا۔ اسی تسبیح کو صندوق سے نکال لایا۔اور جس طرح وہ شیخ کو دانے گراتے دیکھا کرتا تھا تسبیح کو چلانا چلانا شروع کردیا۔ نا گاہ بادشاہ آپ کے حجرے کے سامنے آپہنچا۔۔۔۔
مزید
شیخ جلال بن عبدالرحمٰن سیوطی اپنے وقت کے بڑے عالم دین بلند پایہ فقہیہ فاضل محدث اور بہترین مفسر قرآن تھے۔ آپ کے ہمعصر فضلاء سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے آپ سے مناظرہ کرنے کی ہمت ہوتی آپ نے ہی جلالین کا نصف حصّہ اوّل تالیف کیا اور تفسیر دارلمنثور مکمل لکھی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد چار سو سے بھی زیادہ ہے آپ نے اپنی تفسیر کے دیباچے میں لکھا ہے۔ قرآن پاک میں دو آیات ایسی ہیں جو حروف تہجی پر حاوی ہیں ایک تو اَنزَل عَلَیکُم الغمام۔ اور دوسری مُحمَدَ رسَول اللہ والذین مَعٗہ اشِدَّاء عَلَی الکفُارِ بزرگان دین ان دونوں آیاتِ کریمہ کو قطبین کہتے ہیں آپ نے ایک جگہ لکھا کہ حضورﷺ کے زمانے میں یہ اصحابہ کرام قرآن پاک کے جمع کرنے پر مقرر تھے معاذ بن جبل۔ عبادت بن صامت۔ اولیٰ بن کعب۔ اَبو درد ا انصاری اور حضرت ابو ایّوب انصاری رضی اللہ عنہم۔ اقول صحیح کے مطابق آپ کا وصال ۹۱۱ھ میں ہوا تھا۔ ۔۔۔
مزید
آپ علوم ظاہری اور باطنی میں بڑے بلند مقامات پر فائز تھے علوم شریعت و طریقت میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ کی ولایٔت پر تمام مخلوق اتفاق رکھتی تھی۔ دل میں ذوق تھا اور صاحبِ حال بزرگ تھے۔ قرآن پاک پڑھتے وقت حالت وجد میں رہتے۔ اور خود رفتہ ہوکر قرآن سناتے آپ بڑے صاحب تصنیف ہیں۔ اخلاق محسنی تفسیر حسینی جیسی کتابیں اب تک یاد گار زمانہ ہیں۔ یہ کتابیں علماء و مشائخ کی نگاہ میں ہمیشہ مقبول و مرغوب رہی ہیں۔ آپ ۹۱۰ھ میں واصل بحق ہوئے۔ آپ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی صاحب نفحات الانس کے ہمعصر تھے آپ کی مجلس وعظ میں ہزاروں لوگ جمع ہوتے اور ہدایت پاتے۔ رہبر دین صاحب علم الیقین شیخ بود سالِ وصالش عیاں ۹۱۰ھ عالم معصوم محمد سین نیز مخدوم محمد حسین ۹۱۰ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
بڑے جلیل القدر بزرگ تھے وجام کے رہنے والے اور مولانا شیخ زین الدین خوانی قدس سرہٗ کے مرید تھے۔ ان کی توبہ کا واقعہ یوں لکھا ہے۔ کہ ایک دن لوگ کسی بزرگ کی زیارت کو جارہے تھے۔ آپ اس وقت کھیتی باڑی کے کام میں مصروف تھے۔ لوگوں کو جاتے دیکھا تو ان کے دل میں بھی خیال آیا کہ میں بھی زیارت کے لیے جاؤں ساتھ ہولئے۔ ان نیک لوگوں کی صحبت اور اس بزرگ کی زیارت کا یہ اثر ہوا۔ کہ دنیائے کے علائق سے دل اٹھ گیا اور اس دن سے یاد خدا وندی میں مشغول ہوگئے اورپھر اتنی ریاضت کی کہ اولیاء وقت میں شمار ہونے لگے۔ آپ ۹۰۸ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ عالی ہمم علی صوفی سالِ وصلش چو از خرد جستم رہبر خلق متّقی و ولی! شد ندا مالک بہشت علی ۹۰۸ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید