بن ابی القعیس: ایک روایت میں وائل بن افلح مذکور ہے جو ابو القعیس کے بھائی تھے اور ایک روایت میں اخوا فلح بن ابو القعیس مذکور ہے اس میں اختلاف ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے روایت کی کہ قعیس کے بھائی وائل بن افلح نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کی اجازت طلب کی حکم بن عیبنہ نے عراک بن مالک سے روایت کی کہ افلح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاجر ہوئے، تو ام المومنین نے پردہ کرلیا حالانکہ وائل بن ابی القعیس کی بیوی نے حضرت عائشہ کو دودھ پلایا تھا نیز مروی ہے کہ افلح ابو القعیس نے بتایا، کہ انہیں ترمذی نے انہیں حسن بن علی نے انہیں ابن نمیر نے، انہیں ہشام بن عروہ نے انہیں ان کے والد نے انہیں حضرت عائشہ نے بتایا کہ ام المومنین کے رضاعی چچا ان سے ملنے آئے تو انہوں نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ملنے سے انکار کردیا۔ حضور نے فرمایا وہ تمہارا رضاعی چچا ہے اس ۔۔۔
مزید
القیل: ابن شاہین نے انہیں غیر معروف لوگوں میں شمار کیا ہے، اور باسنادہ ابراہیم بن یوسف بن ابو اسحاق سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ابو اسحاق سے انہوں نے عاصم بن کلیب سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے وائل القیل سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دیکھا کہ آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ہوا تھا۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ بلاشبہ اس سے مراد وائل بن حجر ہیں یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ بایں انداز ان کا ذکر کیا جائے اور اس سے وائل بن حجر نہ سمجھے جائیں کیونکہ ان کی ریاست کا ہر آدمی کو علم ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جب خزیمہ بن ثابت کا ذکر آئے تو اس سے ذو الشہادتیں سمجھے جائیں، خواہ یہ لقب ان کے نام کے ساتھ نہ لکھا گیا ہو۔۔۔۔
مزید
بن جذام: جعفر مستغفری نے ان کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان سے مروی حدیث کے اسناد کچھ اشتباہ ہے، اور انہوں نے باسنادہ یحییٰ بن سعید اموی سے انہوں نے کلبی سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے ابن عباس سے روایت کی، کہ ابو البابہ بن عبد المنذر، وداعہ بن جذام یا حرام اور اوس بن ثعلبہ، غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دے سکے۔ جب انہیں اس باب میں ان آیات کا علم ہوا، جو ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان لوگوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں نہیں کھولیں گے۔ یہ اسی حالت میں رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے جناب باری سے کوئی حکم موصول نہیں ہوگا میں بھی کچھ نہیں کروں گا۔ جب قرآنِ حکیم۔۔۔
مزید
بن ابی وداعہ سہمی: یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے مروی حدیث میں مجالِ گفتگو ہے۔ کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے وداعہ سہمی سے روایت کی کہ ایک بار حضور اکرم ایک گرم دن میں طوافِ کعبہ کے لیے تشریف لائے بعد از طواف پانی طلب فرمایا، تو ایک شخص نے پیالے میں بنیذ پیش کیا۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اسی طرح اس کی روایت کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن اسماعیل تمیمی: بنو یربوع(از بنو تمیم) کے قیدیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے حضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ۔ مجھ پر ایک بنو اسماعیل کے غلام کو آزاد کرنا لازمی ہے اس لیے ان میں سے ایک غلام مجھے عطا فرمادیجیے۔ تاکہ میں اسے آزاد کردوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ غلام بنو غبر سے ہیں، جب وہ آئیں گے تو میں تمہیں ان سے ایک دے دوں گا۔ تم آزاد کردینا ابن مندہ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ وردان بن مخزم کے ترجمے میں ہم پھر ان کا ذکر کریں گے۔۔۔۔
مزید
الجہنی: مستمر بن ریان نے ابو الجوزاء سے، انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے روایت کی کہ وہ لیلۃ الجن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب مقامِ حجون پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ارد گرد ایک خط کھینچ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہوگئے اس پر ان کے سردار وردان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، کیا میں ان جنوں کو آپ سے پرے ہٹادوں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے صرف اللہ کی پناہ کی ضرورت ہے۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ایک کھجور کے درخت سے گر پڑے اور فوت ہوگئے یہ ابن عباس سے عکرمہ کی روایت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے کسی ہموطن کو تلاش کرو، اتفاق سے ایک آدمی مل گیا، اور آپ نے وردان کا سازو سامان اس کے حوال کردیا۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ ابن اصفہانی سے بیان کیا، جنہوں نے مجاہدین وردان سے سنا۔۔۔۔
مزید
جو فرات بن یزید بن وردان کے دادا تھے۔ اور وردان عبد اللہ بن ربیعہ بن خرشتہ الشقفی کے غلام تھے جو محاصرۂ طائف کے موقعہ پر ایمان لائے، عبد اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ تو المنبعث جن کا نام مضطبع تھا اور وردان چھپ کر شہر سے نکل آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن مخرم بن مخرمہ بن قرط بن جناب حارث بن مخضر بن کعب بن عنبر بن عمرو بن تمیم التمیمی العنبری بہ قولِ طبری انہیں اور ان کے بھائی حیدہ بن مخرم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی اور دونوں کے لیے آپ صل اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ یہ قول ہے ابو عمر اور امیر ابو نصر کا ابن مندہ نے وردان بن اسماعیل تمیمی لکھا ہے۔ ابن اسحاق نے عاصم بن عمر سے انہوں نے عائشہ صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی۔ یا رسول اللہ! میں نے بنو اسماعیل کا ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ اس لیے ایک غلام عطا فرمایئے۔ آپ نے فرمایا بنو عنبر کے غلام آنیوالے ہیں ان سے تمہیں دے دونگا جب یہ غلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو حضرت عائشہ کو وردان بن مخرم آزاد کرنے کے دیئے گئے۔ بنو تمیم کا جو وفد، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا۔ ان میں ربیعہ بن ۔۔۔
مزید
بن زفر: ہشام بن محمد نے بنو جہینہ کے ایک شخص سے جو شامی تھا اور جو بنو مرہ بن عوف سے تعلق رکھتا تھا، بیان کیا، کہ بنو صرمہ بن مرہ کا ایک آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سے معاہدہ کیا جب واپس اپنے قبیلے میں آیا، تو معاہدہ توڑ دیا۔ اس پر اس کا چچا زاد بھائی، جس کا نام ساریہ بن اونی تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیزہ طلب فرمایا اور ساریہ بن اونی سے معاہدہ فرمایا، ساریہ اپنے قبیلے میں واپس آگئے اور انہیں اسلام پیش کیا۔ لیکن اہلِ قبیلہ نے ٹال مٹول سے کامل لیا، اس پر ساریہ نے انہیں تلوار کی باڑھ پر رکھ لیا۔ جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو آس پاس کے لوگ، جو بنو قیس سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلمان ہوگئے، اور ساریہ رضی اللہ عنہ ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔۔
مزید