بن استع بن عبد العزی بن عبد یا لیل بن ناثب بن غیرہ بن سعد بن یسث بن بکر بن عبد مناہ بن کتانۃ الکنانی الیثی ایک روایت میں واثلہ بن عبد اللہ بن اسقع ہے ان کی کنیت ابو شداد یا ابو الاسقع یا ابو قرصافہ تھی یہ اس عہد میں ایمان لائے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تھے ایک روایت میں ہے کہ جناب واثلہ اصحابِ صفہ میں شامل تھے اور تین سال آپ کی خدمت میں رہے۔ واقدی لکھتے ہیں کہ جناب واثلہ، مضافات مدینہ میں فرد کش تھے، کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ادھر کو تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے صبح کی نماز آپ کی اقتدا مین ادا کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ بعد از نماز صبح، منہ صحابہ کی طرف پھیر لیتے اور غور سے ہر آدمی کا چہرہ ملاحظہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو اجنبیت کی وجہ سے نہ پہچان سکے دریافت فرمایا کون ہو، اور کیوں آئے ہو انہوں نے عرض کیا یا ۔۔۔
مزید
بن خطاب القرشی العددی: حضرت عمر کے قبیلے سے تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی وہ دمشق میں سکونت پذیر ہوگئے تھے جہاں ان کا ایک مکان تھا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے اسماعیل بن عیاش نے مجاہد بن فرقد سے، انہوں نے واثلہ بن خطاب قرشی سے روایت کی، کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تنہا تشریف فرما تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑا سا اپنے مقام سے ہلے، اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ! جگہ تو کافی ہے آپ نے کیوں زحمت فرمائی۔ فرمایا مسلمان پر مسلمان کا حق ہے، جب وہ اسے دیکھے، تو اس کی خاطر اِدھر اُدھر تھوڑا بہت سر کے ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ روایت اسماعیل سے مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق مجاہد سے مروی ہے جنہوں نے ربعی سے روایت کی۔۔۔۔
مزید
لیثی جو ابو الطفیل عامر بن واثلہ کے والد تھے۔ عمر بن یوسف ثقفی نے ابو الطفیل عامر بن واثلہ سے، انہوں نے اپنے والد یا دادا سے روایت کی کہ انہوں نے حجر اسود کو دیکھا کہ وہ سفید تھا اور زمانۂ جاہلیت میں زیارت کے لیے آنے والے، جب اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے، تو ان کا خون اور گوبر اسود پر مل دیتے تھے ابو موسی نے اس ا ذکر کیا ہے اور اسے حدیث غریب قرار دیا ہے۔ (اگر یہ پتھر ابتدا میں سفید تھا تو پھر اسے اسود کیوں کہتے تھے۔ مترجم)۔۔۔
مزید
بن حباب القرشی: ابو بکر بن ابو علی نے ان کا ذکر کیا ہے اسی طرح قیتبہ بن ابو عبد الرحمٰن مہران نے اسماعیل بن عیاش سے، انہوں نے مجاہد بن فرقد سے انہوں نے واصلہ بن حباب القرشی سے روایت کی کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر ساری حدیث اس طرح بیان کی جس طرح ہم واثلہ بن خطاب کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یا تو اس راوی سے اور یا اوپر کے کسی راوی سے، جاب واصلہ اور ان کے والد کے نام کے بارے میں غلطی ہوگئی ہے۔ ابن اثیر لکھتے ہیں بلا شبہ اس نام میں تصحیف ہوئی ہے چنانچہ حافظ ابو القاسم بن عساکر دمشقی نے اپنے تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے کہ صحیح نام واثلہ بن خطاب ہے۔۔۔۔
مزید
بن حارث الانصاری: انہیں صحبت نصیب ہوئی اور ان کا شمار اہلِ مصر میں ہوتا ہے قیس بن رافع نے ان سے روایت کی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ حضرت عباس کے پاس جمع ہوئے انہوں نے گزرے ہوئے اچھے دنوں کی یاد تازہ کی جس سے حاضرین پر رقت طاری ہوگئی واقد بن حارث خاموش بیٹھے رہے، حاضرین نے کہا اے ابو الحارث آپ کیوں نہیں بولتے انہوں نے جواب دیا آپ لوگ بول رہے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ اس پر اضافے کی گنجائش نہیں حاضرین نے اصرار کیا کہ آپ بھی گفتگو کریں کیونکہ آپ کسی سے چھوٹے نہیں ہیں انہوں نے کہا میں بات یوں سنتا ہوں گویا مجھے اس سے خوف آتا ہے، میں کام کو یوں دیکھتا ہوں گویا اس سے مجھے سکون ملتا ہے تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان سے زاذان نے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کی اطاعت کی خواہ اس نے نماز اور روزے کی ادائیگی اور تلاوت میں کوتاہی کی ہو اسے ذکر الٰہی شمار کیا جائے گا اور جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس نے کثرت سے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے اور تلاوت کی اس کی نمازیں اور روزے رائیگاں جائیں گے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ یربوعی: کبار صحابہ میں سے ہیں عبد اللہ بن عمر نے اپنے بیٹے کا نام ان کے نام پر واقد رکھا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قریش کے قافلے کی تلاش میں عبد اللہ بن حجش کے ساتھ بھیجا تھا ابن مندہ نے ان کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد کلبی کی وہ حدیث بیان کی ہے جو ابو صالح نے بروایت ابن عباس بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واقد بن عبد اللہ کو عبد اللہ بن حجش کے ساتھ قریش کے قافلے کی تلاش میں روانہ فرمایا تھا۔ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ مقام تعجب ہے کہ ابن مندہ نے ایک ہی حدیث کو دو تراجم، اقد بن عبد اللہ حنظلی اور واقد بن عبد اللہ یربوعی، کے تحت بیان کیا ہے حالانکہ دونوں تراجم کے تحت ایک ہی آدمی کا ذکر کیا ہے حنظلی یربوعی کی شاخ ہے ایسی معمولی بات کو نہ سمجھنا حد درجہ حیران کن ہے امیر ابو نصر وغیرہ سے بھی یہ غلطی صادر ہوئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے آدمیوں سے بڑی غلطیاں س۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ بن عبد مناف بن عرین بن ثعلبہ بن یریوع بن حنظلہ بن مالک بن زید مناہ بن تمیم الیتیمی حظلی یریوعی، حلیفِ بنو عدی بن کعب یہ ابو عمر کا قول ہے ابن مندہ نے انہیں واقد بن عبد اللہ الحنظلی لکھا ہے ابو نعیم نے بھی انہیں حنظلی لکھا ہے ایک روایت میں یر بوعی مذکور ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حجش کے سرپے میں روانہ فرمایا تھا۔ انہوں نے اسلام، اس وقت قبول کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دارِ ارقم میں منتقل نہیں ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ان کے بشر گبن براء بن معرور کے درمیان دشتۂ مواخات قائم کیا تھا۔ ابو جعفر بن سمین نے باسنادہ، یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی، کہ انہیں یزید بن رومان نے اور انہوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حجش کو نخلہ کی طرف روانہ فرمایا۔ اور ح۔۔۔
مزید
ان کی کنیت ابو مراوح تھی۔ ابو داؤد سجستانی کہتے ہیں کہ ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ان سے عروہ بن زبیر اور زید بن اسلم نے روایت کی۔ ربیعہ بن عثمان نے زید بن اسلم سے انہوں نے واقد بن مراوح یشیٰ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مال اس لیے اتارا کہ لوگ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ابن مندہ اور ابو نعیم ہر دو نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو نعیم لکھتے ہیں کہ بعض متاخرین مثلاً ابن مندہ نے واقد کا ذکر بحوالہ، ابو داؤد سبستانی کے کیا ہے۔ اور ن کی صحبت کا ذکر کیا ہے۔ ابو نعیم نے اسی پر اکتفا کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن حجرہ بن ربیعہ بن وائل بن لعمیر الحضرمی۔ یہ ابو عمرو کا قول ہے ابو القاسم بن عساکر الدمشقی نے ان کا نسب یوں بیان کیا ہے: وائل بن حجر بن سعد بن مسروق بن وائل بن ضمعج بن وائل بن ربیعہ بن وائل بن نعمان بن زید بن مالک بن زید اور ایک اور روایت کے رو سے ان کا نسب یوں تھا: وائل بن حجر بن سعید بن مسروق بن وائل بن نعمان بن ربیعہ بن حارث بن عوف بن سعد بن عوف بن عدی بن مالک بن شرجیل بن مالک بن مرہ بن حمیر بن زید الحضرمی ابو ہنیدہ حضرمی، حضر موت کے سرداروں سے تھے، اور ان کا والد وہاں کے ملوک سے تھا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آنے سے کئی دن پیشتر ہی صحابہ کرام کو ان کے آنے کی بشارت دے دی تھی کہ عنقریب حضر موت کا حاکم اللہ اور رسول کی خوشنودی کی خاطر حلقۂ اسلام میں شامل ہونے کے لیے آنے والا ہے۔ جب وائل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ح۔۔۔
مزید