بن سعد بن ابی سرح بن حارث بن حبیب بن جذیمہ بن مالک بن حل بن عامر بن لوئ: ان کے بھائی کا نام عبد اللہ تھا۔ احد، خندق، حدیبیہ اور خیبر کے غزوات میں شریک تھے۔ ان کی شہادت غزوۂ موتہ میں واقع ہوئی۔ عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی، کہ وہب بن سعد جعفرِ طیار کے ساتھ موتہ کی جنگ میں شریک تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور سوید بن عمرو کے درمیان مواخات قائم کی تھی۔ دونوں ہی اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ بن محصن بن حرثان: ہم ان کا نسب عکاشہ بن محصن اسدی کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں وہ ان کے چچا تھے۔ ان کی کنیت ابو سنان تھی کہتے ہیں یہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعتِ رضوان کی شعبی نے بنو اس کے ایک آدمی سے کہا کہ جس شخص نے سب سے پہلے درخت کے نیچے بیعت کی، وہ تمہارے قبیلے کا آدمی تھا۔ وہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کس بات پر؟ اس نے عرض کیا جو بات آپ کے دل میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میرے دل میں کیا ہے؟ اس نے کہا فتح یا شہادت اس پر ابو سنان نے بیعت کی اس کے بعد جو بھی آتا۔ وہ یہی کہتا ک میں کبھی ابو سنان کی بیعت پر آپ سے بیعت کرتا ہوں ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ بن قارب الثقفی حجازی: انہوں نے اپنے والد کی معیت میں حج کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے روایت کی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ تھے، کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔ اے اللہ! تو ان لوگوں پر رحم فرما، جنہوں نے اپنے سر منڈوا دیئے۔ ایک شخص نے گزارش کی، یا رسول اللہ! ان لاگوں کو بھی اپنی دعا میں شامل فرمالیجیے جنہوں نے اپنے بال کٹوائے ہیں چنانچہ تیسری آواز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی شامل فرمالیا ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
والد عثمان بن وہب: بہ قول جعفران کی صحبت کا احتمال ہےان کے بیٹے عثمان سے مروی ہے کہ ایک دن بعد ازنماز صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا فلاں قبیلے کا کوئی آدمی موجود ہے، کوئی نہ اٹھا، تو آپ نے پھر دریافت فرمایا۔ اس پر ایک آدمی اٹھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم پہلی دفعہ کیوں نہیں اٹھے تھے، اس نے جواب دیا مجھے خطرہ پیدا ہوگیا تھا مبادا ہمارے بارے میں کوئی تنبیہ نازل ہوئی ہو آپ نے فرمایا نہیں معاملہ یہ ہے کہ کل جو آدمی تمہارے قبیلے کا فوت ہوا تھا۔ چونکہ وہ مقروض تھا اس لیے اسے روک لیا گیا ہے۔ اگر ہوسکے، تو اپنے عزیز کو چھڑانے کی کوشش کرو ابو موسیٰ نے ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن عمرو السدی الغمنی ان کا تعلق بنو غنم بن وودان بن اسد بن خزیمہ سے تھا۔ اور مہاجرین اولین سے تھے۔ ابن مندہ نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ کچھ عرصے کے بعد مہاجرین بہ کثرت آنے لگے بنو غنم بن دوان جو اسلام قبول کرچکے تھے، ان کے مرد اور عورتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت پر ٹوٹ پڑیں ان میں وہب بن عمرو بھی تھے ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو نعیم لکھتے ہیں کہ ابن مندہ نے ان کا نام غلط لکھا ہے صحیح ثقف بن عمرو ہے ابن اثیر لکھتے ہیں کہ مغازی ابن اسحاق میں یونس کے اسناد کے علاوہ اور کہیں وہب بن عمرو کا نام میری نظر سے نہیں گزرا۔ ابو نعیم کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ بن مسلم بن جمادہ بن جذب بن حبیب بن سوأۃ بن عامر بن صعصقہ العامری السوائی ایک روایت میں وہب بن جابر ابو جحیفہ مذکور ہے ان کے نسب کے بارے میں اور روایات بھی ہیں جو کنیتوں کے عنوان کے تحت بیان ہوں گی۔ ان کی کنیت نام سے زیادہ مشہور ہے وہ کوفی تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے توہ وہ ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے تھے۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قابلِ اعتماد کار گزاروں میں شامل تھے اور ان کے منبر کے پاس کھڑے ہوتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وہب الخیر کے نام سے پکارتے تھے۔ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خمس میں اپنے حصے کا نگراں مقرر کیا تھا۔ جنابِ وہب سےان کے بیٹے عون ابو اسحاق سبیعی، اسماعیل بن ابی خالد اور علی بن ارقم نے ابو موسیٰ اصفہانی سے کتابۃً، انہوں نے ابو القاسم غاتم بن ابو نصر محمد بن عبید اللہ الرحی سے جنہیں میرے والد نے پڑھ کر سنایا، اور میں وہاں موجود ت۔۔۔
مزید
بن عمیر القرشی الحجمی: یہ وہب بن عمیر بن وہب الحجمی ہیں ہم ان کے والد کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں ان کے والد کو صفوان بن امیہ بن خلف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مدینے روانہ کیا تھا اور وہ مسلمان ہوگئے تھے اور وہب غزوۂ بدر میں کفار کے لشکر میں شامل تھے ہم ان کا واقعہ ان کے والد کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں۔ فتح مکّہ کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب کو صفوان کے پاس بھیجا، کہ اسے امن کی بشارت دیں اور نیز قبولِ اسلام کی دعوت دیں حالانکہ صفوان ڈر کے مارے بھاگ گیا تھا۔ ہم یہ واقعہ صفوان کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں وہب نے شام میں وفات پائی۔ تینوں نے ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن قیس بن ابان الثقفی: سفیان کے بھائی تھے۔ ان کی حدیث کو امیمہ دختر رقیقہ نے اپنی والدہ کی سند سے یوں بیان کیا کہ جب طائف کو فتح کرنے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ان کے گھر بھی تشریف لے گئے اور رقیقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستو پلائے آپ نے فرمایا اے رقیقہ اہل طائف کے بت کی کبھی عبادت نہ کرنا، اور نہ اس کے سامنے جھکنا اس نے جواب دیا اگر میں ایسا کروں، تو مجھے قتل کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ پوچھیں کہ تیرا رب کون ہے، تو کہنا جو اس بت کا رب ہے وہی میرا رب ہے اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ اٹھالیا اور واپس ہولیے۔ امیمہ کہتی ہیں کہ جب بنو ثقیف نے اسلام قبول کرلیا، تو ان کے بھائیوں سفیان اور وہب نے اپنی ہمشیرہ کو بتایا کہ جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ہماری والدہ کے بارے۔۔۔
مزید
بن کلدہ از بنو عبد اللہ بن غطفان جو اوس کے حلیف تھے غزوۂ بدر میں شریک تھے جعفر المستغفری نے باسنادہ ابن اسحاق سے روایت کی ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ عبد اللہ بن غطفان کا نام عبد العزی تھا۔ جب وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو انہوں نے کہا عبد العزی سے فرمایا آج سے تم بنو عبد اللہ ہو چنانچہ یہ نام پکا ہوگیا۔۔۔۔
مزید
بن سوید الجہنی: یہ مسرع کے والد تھے۔ ان سے ان کی اولاد نے روایت کی عبد اللہ بن داؤد بن دلہاث بن اسماعیل بن عبد اللہ بن مسرع بن یاسر بن سویدا الجہنی نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے بیان کیا، کہ میرے والد نے اپنے والد سے، انہوں نے اسماعیل بن عبد اللہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے مسرع بن یاسر سے روایت کی۔ کہ جناب یاسر نے انہیں بتایا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سواروں یا پیدل سپاہ کے ایک جماعت کے ساتھ ایک فوجی مہم پر روانہ فرمایا۔ اور میری بیوی حاملہ تھی اس دوران میں ان کی بیوی نے ایک لڑکا جنا۔ جسے وہ اٹھا کر حضور کے پاس لے گئی۔ اور گزارش کی یا رسول اللہ، اس کا والد کسی فوجی مہم پر گیا ہوا ہے۔ اور اس اثنا میں یہ بچہ پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کا نام تجویز فرما دیجیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اٹھالیا۔ اور اپنا مبارک ہاتھ اس پر پھیرا۔ اور دعا فرمائی۔۔۔
مزید