منگل , 25 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Tuesday, 16 December,2025

سیدنا) ازداز (رضی اللہ عنہ)

  بعض لوگ کہتے ہیں (ان کا نام) یزداد بن عیسی ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں یہ اپنی روایت میں صحابی کو درمیان سے چھوڑ دیتے ہیں یہ خد صحابی نہیں ہیں بخاریکے سوا اور لوگوںنے بیان کیا ہے کہ یہ صحابی ہیں۔ زکریا بن اسحاق نے عیسی بن ازدازذ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ بعد پیشاب کرچکنے کے اپنے جسم خاص (٭مقصود اس سے یہ ہوتا تھا کہ پیشاب کا کوئی قطرہ جسم خاص میں باقی نہ رہ جائے یہ حدیث صحت کو نہیں پہنچی واللہ اعلم) کو تین مرتبہ مل دیتے تھے ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے کیا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔

مزید

سیدنا) از اذمرد (رضی اللہ عنہ)

  بعد الف کے زے ہے ہرمز فارسی کے بیٹے ہیں کسری (شاہ فارس) کے مقربین میں سے تھے انھوں نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا تھا مگر آپ کو دکھا نہیں ان کی حدیث عکرمہ ابن ابراہیم ازدی نے جریر بن یزید بن جریر بجلی سے انھوں نے انے والد سے انھوں نے ان کے دادا حضرت جریر بن عبداللہ سے انھوں نے از اذمرد سے روایت کی ہیوہ کہتے ہیں اس حال یں ہ ہم کسری کے دروازے پر کھڑے ہوئے (اس کی) اجازت کے منتظر تھے اجازت ملنے میں دیر ہوئی اور گرمی سخت تھی اس سے بہت تکلیف ہوئی حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا لاحول ولا قوۃ الا باللہ ماشاء اللہ کان ومالم یشا لم یکن (٭ترجمہ۔ طاقت اور قدرت اللہ ہی کی مدد سے ہوتی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا) پھر اس نے (از اذمرد سے) پوچھا ہ تم جانتے ہو کہ میں کیا کہا از اذمرد نے کہا ہاں (میں جانتا ہوں) اللہ عزوجل اس کلمہ کے کہنے والے سے مصیبت کو دور کر دیتا ہے پھر انھوں نے ۔۔۔

مزید

سیدنا) ارمی (رضی اللہ عنہ)

  ابن اصحم نجاشی (٭حضرت نجاشی حبش کے بادشاہ تھے پہلے مذہب عیسوی رکھتے تھے پر مشڑف باسلام ہوئے اور بہت اچھی حالت رہی) بن بحر۔ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے محمد بن اسحاق بن یسار نے بیان کیا کہ (نام ان کے والد کا) نجاشی اصحمہ (ہے) اصحمہ کے معنی عربی میں بخشش نجاشی بادشاہ (حبش) کا لقب تھا جیسے کسری (شاہ فارس کا لقب تھا) وہ کہتے ہیں کہ امام ابو القاسم اسماعیل یعنی ابن محمد بن فضل رحمۃ اللہ علیہ نے جو ان کے شیخ تھے مغازی میں انھیں راویوں سے نقل کیا ہے کہ سن۷ھ میں نبی ﷺ بادشاہان ردے زمیں کو خط لکھے اور ان کے پاس قاصد بھیجے آپ نے انھیں اللہ عزوجل (کی اطاعت) کی طرف بلایا کسی نے کہا کہ بادشاہ کسی ایسی تحریر کو جس پر مہر نہ نہیں پڑھتے تو آپنے چاندی کی ایک مہر بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کندہ تھا آپنے وہ مہر تمام خطوط پر کر دی اور حضرت عمرو بن امیر ضمری کو نجاشی اصحمہ بن بحر کے پاس ب۔۔۔

مزید

سیدنا) ارقم (رضی اللہ عنہ)

  نخعی۔نام ان کا اوس بن جہیش بن یزید نخعی ہے۔ ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو علی حداد نے اجازۃ ابو احمد عطار کی کتاب سے نقل کر کے بیان کیا اور ہم سے عمر بن احمد بن عثمان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عمر بن حسن بن مالک نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے منذر قابوسی نے بیان کیا وہ کہتے تھیہم سے حسین نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے یحیی بن زکریا ابن ابراہیم بن سوید نخعی نے حسن بن حکم نخعی سے انھوں نے عبدالرحمن بن عابس نخعی سے انھوںنے قیس بن کعبس ے روایت کر کے بیان کیا کہ قبیلہ نخع سے ان کے بھائی ارطاۃ بن کعب بن شراجیل اور ارقم جن کا نام اوس بن جہیش بن یزید ہے نبی ﷺ کی خدمت میں گئے تھے۔ یہ دونوں اپنے زمانہ میں بڑے حسین اور بہت ہی خوش وضع تھے حضرت نے ان دونوںکو اسلام کی ترغیب دی چنانچہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے اور ان کے حسن وغیرہس ے آپ بہت خوش ہوئے آپنے (ان سے) پوچھا کہ کیا تم نے ۔۔۔

مزید

سیدنا) ارقم (رضی اللہ عنہ)

  بن جفینہ بحیبی۔ قبیلہ بنی بصر بن معاویہ سے ہیں۔ فتح مصر میں شریک تھے ان کا تذکرہ اور ان کی اولاد مصر میں ہے۔ یہ ابن مندہ کا قول ہے اور ابن مندہ نے اس کو ابو سعید بن یونس سے روایت کیا ہے۔ ان کا شمار صحابہ میں ہے۔ ان کی حدیث ابن لہیعہ نے یزید بن حبیب سے انھوںنیعبداللہ بن ارقم بن جفینہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اپناکوئی مقدہ پیش کیا تھا۔ ابو نعیم کہتے ہیں کہ ان کو متقدمیں میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا بعض متاخرین نے یعنی ابن مندہ نے ان کا تذکرہ کیا ہے مگر ان کا کچھ حال انھوں نے نہیں بیان کیا اور اس کا حوالہ ابو سعد بن عبدالاعلی پر کر دیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ یہ فتح مصر میں شریک تھے۔ یہ ان کا نام معلوم ہے اور نہ کسی حدیث میں ان کا ذکر ہے۔ انکا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے کیا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔

مزید

سیدنا) ارقم (رضی اللہ عنہ)

  ابن ابی الارقم۔ ابی الارقم کا نام عبد مناف بن اسد بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم قرشی مخزومی۔ ان کی والدہ امیہ بنت حارث ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام تماضر بنت حذیم ہے قبیلہ بنی سہم سے ہیں اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کا نام صفیہ بنت حارث بن خالد بن عمیر بن حبشان خزاعیہ ہے۔ حضرت ارقم کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ اسلام کی طرف سب سے پہلیسبقت کرنے والوں میں ہیں قدیم الاسلامہیں بعض لوگ کہتے ہیں یہ بارہویں تھے (یعنی ان سے پہلے صرف گیا وہ آدمی مسلمان ہوئے تھے) اور یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ جنگ بدر میں شریک تھے انھیں رسول خدا ﷺ نے بدر کے مال غنیمت سے ایک تلوار دی تھی۔ انھیں رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ) صدقات کے تحصیل کرنیکے لئے بھی مقرر فرمایا تھا۔ یہ وہی شخص ہیں جن کے گھر میں (ہجرت سے پہلے) مکہ میں رسول خدا ﷺ اور مسلمان چھپے تھے جب کہ مشرکوںکا خوف تھا (انکا گھر کوہ صفا کے نیچے تھا) یہاں تک۔۔۔

مزید

سیدنا) ارطاۃ (رضی اللہ عنہ)

  ابن منذر۔ ہمیں ابو موسینے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے کہ عبدان بن مروزی نے کہا ہے کہ (یہ) ارطاۃ بن منذر سکونی ہیں اور یہ صحابی ہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم سے ہشام بن عمار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے مسلمہ بن علی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے نصر بن علقمہ نے اپنے بھائیس ے انھوں نے ابن عائذ سے انھوںنے ارطاۃ بن منذر سکونی سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں نے رسول خدا ﷺ کے ہمراہ ننانوے مشرکوںکو قتل کیا ہے اور میں اس بات کو نہیں پسند کرتا کہ اتنے ہی مسڑک اور قتل کر دوں اور کسی ایک مسلمان (٭مسلمانوں کو چاہئے کہ اس واقعہ سے سبق دیکھیں کہ مسلمانوں کی پردہ دری اور ان کی آبرو ریزی کس قدر گناہ ہے) کا راز فاش کر دوں (یعنی ایک مسلمانکے راز فاش کرنے والے جس قدر گناہ ہے اس کی تلافی مشرکوںکی اس کثیر تعداد کے قتل کرنے کا ثواب نہیں کرسکتا) عبدان نے کہا ہے کہ محمد بن علی بن رافع کہتے ۔۔۔

مزید

سیدنا) ارطاۃ (رضی اللہ عنہ)

  ابن کعب بن شراحیل بن کعب بن سلامان بن عامر بن حارثہ بن سعد بن مالک بن نخع بن عمرو بن علۃ بن جلد بن مالک بن ادویہ یہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپنے انھیں ایک جھنڈا دیا اس جھنڈے کو لے کے یہ جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے اور شہید ہوئے پھر اس جھنڈے کو قیس بن کعب نے لیا وہ بھی شہید ہوگئے۔ یہ ارطااۃ اور حجاج بن ارطاۃ بن ثور بن ہبیرہ بن شراحیل شراحیل میں جا کے مل جاتی ہیں۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے اوس بن جہیش کے بیان کیا کیا ہے علیحدہ ان کا ذکر نہیں کیا۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔

مزید

سیدنا ابجر (رضی اللہ عنہ)

  مزنی (یعنی قبیلہ مزینہ کے) ان کو ابن مندہ نے اور ابو نعی نے ذکر کیا ہے۔ ان کی بابت اختلف ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ابجر کے بیٹیہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ خود انھیں کا نام ابجر تھا اور صحیح یہ ہے کہ ان کا نام غالب ابن ابجر تھا۔ ہمیں خطیب ابو الفضل عبداللہ بن احمد بن عبدالقاہر نے اپنی اسناد سے ابودائود طیالسی تک خبر دی وہ کہتے تھے کہ ہم سے شعبہ نے عبید بن حسن سے روایت کی وہ کہتے تھے میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا وہ عبداللہ بن بسر سے وہ مزینہ کے کچھ لوگوں سے روایت کراتے تھے کہ انھوں نے کہا ہمارے سردر ابجر یا ابن ابجر نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ میرے مال میں صرف میرے گدھے باقی رہ گئے ہیں تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اپنے فربہ گدھے (ذبح کر کے) اپنے گھر والوں کو کھلا دو کیوںکہ صرف وہی گدھے حرام ہیں جو غلیظ کھاتے ہوں۔ ایسا ہی ابودائود نے روایت کیا ہے اور غندر نے اس کی مخالفت کی ہے وہ ک۔۔۔

مزید

سیدنا) ابان (رضی اللہ عنہ)

  محار فی یہ منجملہ ان لوگوںکے ہیں جو قبیلہ عبدالقیس کی طرف سے رسول خدا ﷺ کے پاس آئے تھے۔ ان کو تینوں نے لکھا ہے حکم بن حبان محاربی نے حضرت ابان محاربی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں بھی منجملہ وفود کے تھا میں نے رسول خدا ﷺ کے بغل کی سپیدی دیکھی جب آپ نے (تکبیر تحریمہ کے لئے) انے دونوں ہاتھ قبلہ کی طرف ان کا رخ کر کے اٹھائے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ ابو نعیم اور ابو عمر (ابن عبدالبر۹ نے ابان عبدی کو ذکر نہیں کیا اور ان کو صرف ابن مندہنے ذکر کیا ہے ور یہ ان کا وہم ہے کیوںکہ ابان عبدی اور ابان محاربی دونوںایک ہیں۔ محارب قبیلہ عبدالقیس کی ایک شاخ ہے اور یہ شاخ جن کی طرف منسوب ہے وہ محرب بن عمرو بن ودیعہ بن لکیر بن افصی بن عبدالقیس ہیں پس یی ابان عبدی بھیہیں ور محاربی بھی ہیں ور شاید ابن مندو نے ان کو محاربی (لکھا ہوا) دیکھا تو انھوں نے ان کو محارب بن خصفہ بن قیس گیلان (کے خاندان) سے سمجھا۔۔۔

مزید