منگل , 25 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Tuesday, 16 December,2025

سیدنا) ابان (رضی اللہ عنہ)

  عبدی (یعنی قبیلہ عبدالقیس کے) ان کا تزکرہ صرف ابن مندہ نے لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ اپنی قوم کی طرف سے رسول خدا ﷺ کے پاس آئے تھے اور یہی محمد بن سعد واقدی سے مروی ہے حالانکہ یہ وہم ہے اور س تذکرہ میں جو س کے بعد جو اس کی بحث آئے گی۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)۔۔۔

مزید

سیدنا ابان (رضی اللہ عنہ)

  سعید بن عاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی قرشی اموی کے فرزند ہیں اور انکی والدہ ہند بنت مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت مغیہ جو حضرت خالد بن ولید بن مغیرہ کی پھوپھی تھیں حضرت ابان اور رسول خدا ﷺ عبد مناف میں جاکے ملتے ہیں۔ یہ اپنے دونوں بھائیوں خالد اور عمرو کے بعد اسلام لائے اور جب وہ اسلام لائے تو انھوں نے کہا (ترجمہ اشعار) کاش (٭یہ اشعار اس زمانے کے ہیں جس زمانہ میں حضرت ابان رضی اللہ عنہ دور کافر تھے وہ اپنے نو مسلم بھائیوں کی ان اشعار میں ہے کرتے ہیں کہ کاش میرے (باپ جو مر چکے ہیں اور یہ میں مدفون ہیں زندہ ہوتے اور) عمر و خالد کی افتراپرداز زبان (یعنی یہ کہ وہ ایک ہم جیسے بشر کو نبی کہتے ہیں اور بتوںکی پرستش وغیرہ کی ممانعت خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں دیکھتے (تو ان دونوں کو مزا بتاتے)) (مقام) ظریہ میں (جو)۔۔۔

مزید

سیدنا) آبی اللحم (رضی اللہ عنہ)

  قبیلہ غفار کے ہیں قدیم الصحبت ہیں یہ عمیر کے غلام ہیں اوپر سے (یعنی) ان کے بپ ددا کے وقت سے یہ غلامی چلی آرہی ہے ان کے نام میں لوگوں کا اختلاف ہے باوجود اس امر پر اتفاق کے کہ وہ قبیلہ غفار سے ہیں خلیفہ بن خیاط نے کہا ہے کہ ان کا نام عبداللہ بن عبدالملک ہے اور کلبی نے کہا ہے کہ آبی اللحم کا نام خلف بن مالک بن عبداللہ بن حارثہ بن غفار ہے ان کی اولاد میں سے حویرث بن عبداللہ بن مابی للحم ہیں کلبی نے حویرث کو آبی اللحم کی اولاد میں قرار دیا۔ اور ہیثم کہتے ہیں کہ ان کا نام خلف بن عبدالملک تھا اور بعض لوگ کہتیہیں کہ ان کا نام حویرث بن عبداللہ بن مالک بن عبداللہ بن ثعلبہ بن غفار تھا۔ اور ان کو آبی اللحم اس وجہ سے کہتے ہیں کہ (آبی اللحم کے معنی ہیں گوشت سے انکار کرنے والا ار وہ) جو جانور بتوںکے نام پر ذبح کیا جاتا تھا اس کا گوشت نہ کھاتے تھے اور بعض لوگ کہتیہیں کہ وہ بالکل گوشت نہ کھاتے تھے۔۔۔۔

مزید

سیدنا) ارطاۃ (رضی اللہ عنہ)

  قبیلہ طے کے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ارطاۃ کے والد تھے نبی ﷺ کے پاس ۰مقام) ذی الخلصہ کے فتح کی بشارت لے کے آئے تھے اس وقت آپ نے ان کا نام بشیر رکھا تھا۔ قیس بن ربیع نے اسماعیل بن ابی خالد سے انھوں نے قیس بن ابی حازم سے انھوں نے حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت کی کہ نبی ﷺنے انھیں ذی (٭ذوالخلصہ ایک شیوالہ تھا یمن میں اس میں ایک بت تھا جس کا نام خلصہ تھا مشرک اس کی پرستش کیا کرتے تھے اور اس شیوالہ کو وہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے(خیر جاری شمع صحیح بخاری)) الخلصہ کے گرا دینے کے لئے بھیجا تھا (چنانچہ حسب ارشد اس کو منہدم کرچکے) تو انھوںنے نبی ﷺ کی کدمت میں ایک قاصد بھیجا جنکا نام ارطاۃ تھا چنانچہ وہ آئے اور انھوں نے حضرت کو بشارت دی نبی ﷺ (اس بشارت کو سن کے) سجدے میں گر گئے اس حدیث کو محمد بن عبداللہ نے نمیر سے انھوں نے اسماعیل سے روایت کیا ہے اور انھوں نے انھیں ابو ارطاۃ کہا ہے۔ اور اسماع۔۔۔

مزید

سیدنا) اربد (رضی اللہ عنہ)

  ابن مخشی اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام سوید بن مخشی ہے۔ یہ صحابی ہیں قبیلہ طے کے ان کا ذکر ابو معشر وغیرہ نے ان لوگوں میں کیا ہے جو بدر میں شریک تھے۔ ابو عمر نے ان کا تذکرہ سوید کے بیان یں کیا ہے ان کا تذکرہ ابو احمد عسکری نے بھی کیا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)۔۔۔

مزید

سیدنا) اربد (رضی اللہ عنہ)

  رسول خدا ﷺ کے خادم ہیں۔ ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے کہ اربد رسول خدا ﷺ کے خادم ہیں ان کا تذکرہ ابو عبداللہ بن مندہ نے (اپنی) تاریخ میں کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی حدیث اصبغ بن زیدنے سعید بن راشد سے انھوں نے (حضرت امام) زید ۰شہید۹ سے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ (یعنی امام زین العابدین) سے انھوں نے اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراسے روایت کی ہے اس حدیث میں کچھ ان کا ذکر ہے۔ انکا تذکرہ ابو موسینے لکھا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)۔۔۔

مزید

سیدنا) اربد (رضی اللہ عنہ)

  ابن حیر اور بع لوگ کہتے ہیں کہ ابن حمزہ۔ وہب بن جریر نے اپنیوالد سے انھوں نیابن اسحاق سے نقل کر کے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا جن لوگوںنے نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی ان میں اربد بن حمیر بھی ہیں اور ابن سعد نے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ جن لوگوں نے حبش کی طرف ہجرت کی تھی اور جنگ بدر میں شریک ہوئے ان میں اربد بن عمیر بھی ہیں حمیر کے حاکو پیش اور میم کو زبر اور یے کو تشدید ہے اور اخیر میں رے ہے۔ یہ امیر ابو نصر بن ماکولا کا قول ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)۔۔۔

مزید

سیدنا) اذینہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن حارث بن یعمر۔ ان کا نام شداخ بن کعب بن مالک بن عامر بن لیث بن بکر بن عبد مناۃ ابن کنانہ بن خزیمہ کنانی لیثی۔ کنیت ان کی ابو عبدالرحمن۔ یہ نسب ابن مندہ اور ابو نعیم تو بخاری سے نقل کیا ہے۔ اور ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ ان کا نام اذینہ بن معنر ہے پھر ابن عبدالبر نے ان کا نسب کنانہ تک پہنچایا جیسا کہ گذر چکا اور اس کے بعد انھوں نے کہا ہے کہ پہلا ہی قول زیادہ صحیح ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ بعض لوگوںنے ان کو قبیلہ شنوہ سے بیان کیا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ ابودائود طیالسی نے اپنیمسند میں سلام کہتے ابو الاحوص سے انھوں نے ابو اسحاق سے انھوں نیعبدالرحمن بن اذینہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص قسم کھائے مگر اس قسم کا جانب خلاف اس سے بہتر ہو تو اسے چاہئے کہ اسی بات کو کرے جو بہتر ہو اور اپنیق سم کا کفارہ دے دے۔ اس حدیث کو سوا ابو الاحوص یعنی سلام بن سلیم کے اور کسی نے ابو اسحاق ۔۔۔

مزید

سیدنا) ادیم (رضی اللہ عنہ)

  ثقلبی۔ ان سے صبی بن سعید نے روایت کی ہے۔ ہمیں ابو موسی نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں یہ علی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو نعیم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر طلحی نے عبید بن غنامس ے انھوں نے علی بن حکیمس ے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسرائیل نے منصور سے انھوں نے ابو وائل سے انھوں نے صبی بن معبد سے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں پہلے نصرانی تھا پھر مسلمان ہوا بعد اس کے میں نے حج کرنیکا ارادہ کیا تو میں نے اپنی قوم کے ایک شخص سے جن کا نام ادیم تھا پوچھا تو انھوں نے کہا کہ تم قران کرو یعنی حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھو اور انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے بھی قران کیا تھا۔ اسی حدیث کو جریرہ نے منصود سے انھوں نے ابو وائل سے انھوں نے صبی سے روایت کیا ہے مگر انھوں نے (ادیم کی جگہ) ہدیم بن عبداللہ کہا ہے۔ ابو موسی کہتے ہیں کسی نے اس حدیث میں نبی ﷺ کا ذکر نہیں ک۔۔۔

مزید

سیدنا) ادریس (رضی اللہ عنہ)

  ان کا تذکرہ ابرہہ کے ساتھ گذر چکا ہے یہ ان لوگوں میں ہیں جو شام چلے گئے تھے۔ ان کا تذکرہ ابو موسینے لکھا ہے۔ (اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)۔۔۔

مزید