بن مسروق عیسی: یہ ان نو آدمیوں میں شامل تھے، جو بنو عبس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ادا کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام میسرہ رکھ دیا۔ انہوں نے گزارش کی۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حد درجہ اشتیاق تھا۔ وہ اسلام لائے اور خدمت اسلام میں پیش پیش رہے اور شکر گزار ہوئے، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل نارِ جہنّم سے بچ گئے۔ اور حضرت ابو بکر بھی ان سے بہ احترام سلوک فرماتے تھے۔ اثیری نے ان کے ذکر میں ابو عمر پر استدارک کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ایک روایت میں ان کا نام مہران وغیرہ بھی مذکور ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ۔۔۔
مزید
بن سنباد عقیلی: ان کی کنیت ابو مغیرہ تھی۔ معتمر بن سلیمان نے اپنےوالد سے روایت کی کہ ہم امام حسن رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک شخص جس کا نام میمون بن سنباد تھا اور صحابی تھا، ہماری طرف آیا اور کہنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے قوام کا دار و مدار شرارِ امّت پر ہے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو عمر کہتے کہ بعض لوگ انہیں صحابی نہیں مانتے بات صرف اتنی ہے کہ وہ یمنی تھے۔ ۔۔۔
مزید
بن یامین: سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ میمون بن یامین، جو مدینے میں یہود کا سردار تھا مسلمان ہوگیا انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے اور یہود مدینہ کے درمیان کسی کو حکم مقرر کریں۔ تو مجھے وہ بطورِ حکم تسلیم کرلیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا اور میمون کو گھر میں چھپا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز پیش کی، تو یہود میمون بن یامین کو حکم ماننے پر تیار ہوگئے۔ جب اُنہیں سامنے لایا گیا اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تو یہود نے میمون بن یامین کو حکم ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ كَفَرْتُمْ بِهٖ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ‘‘ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
غیر منسوب ہیں۔ شام میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ اشعث بن سوار نے محمد بن سیرین سے انہوں نے میمون سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح شام سے پیشتر ہی وہاں ایک جاگیر کی درخواست کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرمان لکھ دیا۔ جس میں جاگیر کا حکم تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام فتح ہوا، تو انہوں نے وہ فرمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ خلیفہ نے اس کے تین حصّے کر کے ایک حصّہ مسافروں کے لیے ایک اس کی تعمیر کے لیے اور ایک جناب میمون کے لیے مخصوص کردیا۔ ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
غیر منسوب ہیں۔ اسماعیل بن جعفر نے محمد بن عمرو سے انہوں نے ابو سلمہ سے روایت کی، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت کی رات بھی ایسا ہی ہوا تھا) مقام حجر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، اے حجر تو خدا کی زمین میں محبوب ترین اور معزز ترین مقام ہے اور اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا گیا۔ تو مَیں کبھی نہ نکلوں گا اور آج صرف اس وقت کے لیے مجھے اجازت عطا ہوئی ہے۔ اس کے بعد تا ابد اس زمین سے درخت اکھیڑنا۔ گھوڑوں کو روکنا۔ گری پڑی چیزوں کو سوائے اصل مالک کے اُٹھانا حرام ہے۔ ایک مینا نامی آدمی نے گزارش کی۔ یا رسول اللہ اذخر گھاس کو مستثنیٰ فرما دیجیے، کہ اسے ہم چھتوں پر ڈالتے ہیں اور قبروں میں بھی کام آتا ہے۔ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ابو الحسن لبنانی مینا کو اسی طرح لکھتے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کے راوی عباس بن عبد المطلب ہیں۔ نیز اس حدیث میں شاہ یا ابو شاہ کا ذکر بھی آیا ہے جو ت۔۔۔
مزید
الجعدی: ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے کسی نے قیس بن عبد اللہ کسی نے عبد اللہ بن قیس اور کسی نے حبان بن قیس بن عمر و بن عدس بن ربیعہ بن جعد بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعۃ عامری، جعدی لکھا ہے۔ ابو عمر نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے الکلبی نے قیس بن عبد اللہ بن عدس بن ربیعہ لکھا ہے نیزان کے سلسلۂ نسب میں بھی کلبی نے اختلاف کیا ہے جو کچھ ہم نے لکھا ہے، ان کے بارے میں مشہور روایات یہی ہیں۔ انہیں نالغہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت میں شعر کہا کرتے تھے، بعدۂ انہوں نے شعر کہنا بند کردیا۔ اور ۳۰ برس خاموش رہے پھر طبیعت ادھر متوجہ ہوئی اور شعر کہنے لگے اس پر نابغہ(غیر معمولی ذہین) کہلائے انہوں نے جاہلیت اور اسلام میں طویل عرصہ بسر کیا وہ نابغہ، ذبیانی سے عمر میں بڑے تھے نابغہ ذبیانی نابغۂ جعدی سے پہلے فوت ہوگئے اور آخر الذکر ان کے بعد طویل عرصہ تک زندہ رہے بروایتے انہوں نے ۱۱۸ برس عم۔۔۔
مزید
الحبشی جو جناب ایمن کے والد تھے ابو احمد عسال کا قول ہے کہ جنابِ نابل کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ ہمیں ابو موسیٰ نے کتابتًا اطلاع دی کہ انہیں جعفر بن عبد الواحد ثقفی نے انہیں طاہر بن عبد الرحیم نے انہیں عبد اللہ بن محمد نے انہیں ابو جعفر عبد اللہ بن محمد بن زکریا نے، انہیں بکار بن عبد اللہ بن محمد بن ابن سیرین نے انہیں ایمن بن نابل المکی نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک بدو نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو اونٹنیاں تحفۃً پیش کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنا چاہیں لیکن وہ رضا مند نہ ہوا آپ نے پھر لوٹانا چاہیں لیکن وہ راضی نہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ میں سوائے قریش، انصار اور بنو ثقیف کے اور کسی سے ہدیہ قبول نہیں کرتا ایک جماعت نے بکار سے یہ روایت بیان کی ہے ابو موسیٰ نے بھی اس کی تخریج کی ہے۔ سیّدنا نا۔۔۔
مزید
بن اعجم اسلمی انہوں نے امیر معاویہ کے عہد میں مدینے میں وفات پائی لاولد تھے یہ قول ابن شاہین کا ہے جو انہوں نے محمد بن سعدد اقدی سے نقل کیا ہے ابو موسی نے اسے بیان کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ابن مغفل بن عبدغنم اوربعض لوگوں نے عبدنہم بیان کیاہے وہ بیٹے ہیں عفیف بن اسحم بن ربیعہ بن عداء بن عدی بن ثعلبہ بن ذویب بن کے ذویب کا نام بعض نے دوید بیان کیا ہے۔ذویب بیٹے ہیں سعد بن عباء بن عثمان بن عمروبن اذین طانجہ کے مزنی ہیں عثمان کی وہ اولاد جو کہ (ان کی بی بی)مزینہ (کےبطن) سے ہیں سب اپنی ماں مزینہ بن کلیب بن وبرہ کی طرف منسوب ہیں یہی عمروبن اوس چچاہیں تمیم بن مرین ادکے۔حضرت عبداللہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ان کی کنیت ابوسعید تھی بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابوعبدالرحمٰن تھی اور بعض کاقول ہے کہ ان کی کنیت ابوزیاد تھی۔انھوں نے (پہلے)مدینہ میں سکونت اختیارکرلی تھی(بعد میں) پھروہاں سے بصرہ چلے گئے اور وہیں جامع مسجد کے قریب ایک مکان بھی بنالیا۔عبداللہ ان اہل بکامیں ہیں کہ جن کے بارہ میں اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔۱؎ ولا علی الذین اذامااتوک لتحملہم قلت لااجدما احملکم علیہ تولواو۔۔۔
مزید