بن ابی الجعد بارقی ہیں اوربارق (خاندان)ازدسے(ایک بطن)ہے اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ بارق ایک پہاڑ (کانام)ہے بعض لوگ قبیلہ ازد کے وہاں فروکش ہوئےتھے پس وہ اسی (کےنام) سے منسوب ہوگئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں عروہ کوکوفہ کاقاضی بنایاتھااوران کے ساتھ سلمان بن ربیعہ باہلی کوبھی مقررکیاتھایہ واقعہ شریح کےقاضی بنانےسےپہلے تھا۔ان کاتذکرہ ابو عمرنے لکھاہےاوریہ حدیث ان سے مروی ہےکہ گھوڑی کی پیشانی میں خیروابستہ ہے اور اس حدیث کوابن مندہ اورابونعیم نے عروہ بن ابی الجعدکے بیان میں لکھاہےاوربعض نے ابن ابی الجعد کہاہے۔ یہ پہلے گزرچکاہے۔اورابوموسی نے ان کا تذکرہ نہیں کیاحالانکہ ایسے تذکروں کی ان کی عادت ہے۔ عروہ کے پاس سترگھوڑے رہتےتھےجن لوگوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ سے شام کی طرف کوچ کیاتھایہ ان سب میں بڑےتھے۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
بن حرثان بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب یہ مہاجرین حبش سےتھے اوروہیں ہلاک ہوئےانھوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تھی یہ جعفرنے کہاہے۔ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھاہے۔ میں کہتاہوں کہ ابوموسیٰ نے ان کوعروہ بن اثاثہ عدوی بیان کیاہےاوران کا تذکرہ اس بیان سے پیشترہوچکاہےاوریہ بھی کہاہے کہ یہ مہاجرین فتح سے تھے مگروہاں ان کانسب نہیں بیان کیاپھر یہاں ان کوعروہ بن عبدالعزی کہاہےاورنسب بھی بیان کیااورکہاہے کہ مہاجرین حبش سےہیں اوروہ دونوں ایک ہیں حالانکہ وہ ابن اثاثہ بن عبدالعزی ہیں اورانکے بیان میں ان کا نسب پہلے گذرچکاہے جس طرح کہ ابوعمراورزبیروغیرہمانےذکرکیاہےاورشک نہیں کہ ابوموسیٰ نے چونکہ اس تذکرہ میں عروہ کوابن اثاثہ اورمہاجرین فتح سے لکھاہوادیکھااوران کانسب انکو معلوم نہ تھااوریہاں عروہ کوابن عبدالعزی لکھاہوادیکھاعبدالعزی نام ان کے داداکاتھا لہذاانھوں نے ان دونوں کو دو شخص خیال ۔۔۔
مزید
بن رفاعہ ان کوبھی اسمعیلی نے بیان کیاہے اوراپنی سند کے ساتھ عمروبن دینارسے انھوں نے عروہ ابن عبید بن رفاعہ سے روایت کی ہے کہ اسماء بنت عمس اپنے تین لڑکوں کو لے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اوران لڑکوں کوافسون سکھانے کی آپ سے اجازت مانگی آپ نے فرمایاسکھادو۔اسمعیلی نے کہاہے کہ عمروبن دینارنے عروہ بن رفاعہ انصاری سے روایت کی ہے۔ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھاہے۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
ان کوابن شاہین نےبیان کیاہے۔ہم کوعبدالوہاب بن ابی منصور صوفی نےاپنی سندکو ابوداؤد(سجستانی)تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھےہم سے احمد بن حنبل وابوبکربن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے وہ کہتےتھے ہم سے وکیع نے سفیان سے انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انھوں نے عروہ بن عامرسے نقل کرکےبیان کیاوہ کہتےتھے کہ احمدقریشی نے کہاکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے فال بدکے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا کہ فال نیک اچھی چیزہے اورمسلمانوں کوفال بد پر خیال نہ کرناچاہیے۔پس جس وقت کوئی شخص تم میں سے فال بددیکھے توکہے۱؎ اللہم لایاتی بالحسنات الاانت ولایدفع السیئات الاانت لاحول ولاقوۃ الابک۔ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھ کرکہاہے کہ ابن ابی حاتم نے کہاہے کہ عروہ بن عامر نے ابن عباس اورعبید بن رفاعہ سے(حدیث کی)سماعت کی ہے ان سے حبیب نے روایت کی ہے اس بناپریہ حدیث مرسل ہوگی اورابواحمد عسکری نےکہاہے کہ عروہ بن عامرجہنی۔۔۔
مزید
ہیں اس کوابوبکراسمعیلی نےبیان کیاہے ان سےان کے بیٹے محمدنے روایت کی ہے وہ کہتےتھےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کی علامتیں یہ ہیں کہ ویران(مقام) آباد ہوجائیں اورآباد(مقام)ویران ہوجائیں گےاورجہاد(کامال غنیمت)فیہ ہوجائےگااورآدمی امانت کواپنے قلب اس طرح نکال ڈالےگاجس طرح اونٹ درخت سے پتے کھینچ لیتاہے۔ ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نےلکھاہے۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
بن صلت بن حبیب بن حارثہ بن بلال بن سماک بن عوف بن امری القیس بن بہثہ بن سلیم سلمی ہیں بنی عمرو بن عوف کے حلیف تھےمحمدبن اسحاق اورواقدی نے ان کو ان لوگوں میں بیان کیا ہے جوکہ بیرمعونہ کے واقعہ میں شہیدہوئےتھے۔مشرکوں نے واقعہ بیرمعونہ میں عروہ بن اسماء کے امان دینے کی خواہش کی کیوں کہ یہ عامربن طفیل کے دوست تھےمگرباوجودیکہ ان کی قوم بنی سلم نے ان کوامان طلب کرنے کی بہت ترغیب دی انھوں نے منظونہ کیااورکہاکہ میں اپنے ساتھیوں سے اپنی جان عزیزنہیں رکھتابعداس کے آگے بڑھے اورلڑے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
بن ہوذہ بن ربیعہ اوروہی ربیعہ بکاء بن عامربن صعصعہ ہیں یہ عرفجہ اوران کے بھائی عمروبن عامر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفدہوکرآئےتھےآپ نے ان کےرہنے کے مقامات یعنی مصنع اورفرارہبہ کردیےتھے اس کوابن دباغ نےبیان کیاہے۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
ان کولوگوں نے ان شخصوں میں ذکرکیاہے جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ پایاتھا فتح مکہ کے نومسلموں میں ہیں۔ان کاتذکرہ ابوعمرنے لکھاہے اورکہاہے کہ میں ان کو گمان کرتاہوں کہ عدی بن ربیعہ بن عبدالعزی بن عبدشمس بن عبدمناف ہیں اور ابوالعاص بن ربیع کے چچازاد بھائی ہیں پس اگران کا خیال سچاہے تویہ دونوں دوشخص ہیں یعنی یہ عدی اوران سے پہلے (تذکرہ والے)عدی(دونوں علیٰحدہ علیٰحدہ ہیں)۔ (اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)۔۔۔
مزید
بن عبداللہ بن سعدبن حشرج بن امرءالقیس بن عدی بن اخزم بن ابی اخزم بن ربیعہ بن جرول بن ثعل ابن عمروبن غوث بن علی طائی ہیں ان کے والد حاتم ایسے بخشش والے تھے کہ ان کی بخشش ضرب المثل تھی۔عدی کی کنیت ابوطریف تھی اوربعض نے کہاہے کہ ابووہب تھی ان کے نسب میں طی تک بعض ناموں کی نسبت نسب جاننے والوں نے اختلاف کیاہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۹ھ ہجری ماہ شعبان میں وفدہوکرآئےتھے۔بعض نے کہاہے کہ۱۰ھہجری میں آئے تھےاوراسلام لائےیہ (پہلے )نصرانی تھے۔ہم کوابوالفضل یعنی عبداللہ بن احمدبن عبدالقاہر نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کو ابومحمدیعنی جعفربن احمدقاری نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کو علی بن محسن تنوخی نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے عیسیٰ بن علی بن داؤدنے خبردی وہ کہتےتھے ہم کوعبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے اسحق ابن ابراہیم مروزی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حمادبن زیدنے ایوب سے۔۔۔
مزید
بن زہیربن ابی شدادبن ربیعہ بن ہلال بن مالک بن ضبہ بن حارث بن فہربن مالک قریشی فہری ہیں یہ اول زمانے میں اسلام لائے تھے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی یہ سب کا قول ہے مگر ہشام بن کلبی نے کہاہے کہ یہ عامربن عبدغنم ہیں۔ان کاتذکرہ ابوعمرنے لکھاہے۔ (اسد الغابۃ ۔جلد ۔۶،۷)۔۔۔
مزید