مولانا مسعود شروانی: کمال الدین لقب تھا،تمام علوم معقول و منقول خصوصاً علمِ کلام منطق و حکمیات میں عالمِ علمائے زمانہ تھے،کئی سال تک مدرسہ گوہر شاد آغا اور مدرسہ اخلاصیہ واقع ہرات میں درس و تدریس او افادۂ خلق اللہ میں مشغول رہے۔جب قاضی نظام الدین فوت ہوئے تو آپ نے تدریس مدرسہ گوہر شاد آغا کی ترک کر کے مدرسہ غیاثیہ میں عَلَمِ افادت بلند کیا اور جس روز آپ نے مدرسۂ مذکورہ میں اجلاس فرمایا امیر نظام الدین علی شیر اور تمامی سادات اور علماء و اکابر دار السلطنت ہرات جمع ہوئے۔چونکہ مدرسۂ مذکورہ کے وقف کی ایک شرط یہ تھی کہ علمائے خراسان کا اعلم شخص وہاں مدرس مقرر ہونا چاہئے اس لیے اس روز آپ نے قصد تعریض علمائے خراسان کا کر کے اس مجمع میں آیۂ انی اعلم مالا تعلمون کا درس دیا اور اس قدر نکاتِ بدیعہ اور معانی شریفہ بیان فرمائے کہ سب ل۔۔۔
مزید
قاسم بن حسین بن احمد المعروف بہ صدر الافاضل خوارزمی نحوی: ۹؍ماہِ شوال ۵۵۵ھ میں پیدا ہوئے۔ابو محمد کنیت اور مجد الدین لقب تھا،سچ مچ کے صدر الافاضل اور عربیت وغیرہ علوم میں یگانۂ زمانہ اور طبع نقاد اور نظم و شعر میں مہارت کامل رکھتے تھے،علاوہ اس کے برے خوش خلق اور تیز زبان تھے،فقہ برہان الدین ناصر صاحب مغرب تلمیذ ابی المؤید موفت ابن شاگرد نجم الدین عمر نسفی سے حاصل کی اور کتاب تجمیر شرح مفصل اور کتاب شرح سقط الزند اور کتاب توضیح شرح مقامات اور کتاب شرح انموذج اور نحو میں شرح ابینہ وزوایا اور بیان میں شرح محصل وغیرہ تصنیف کیں۔۶۱۷ھ میں تاتاریوں نے آپ کو قتل کیا۔’’قطب وقت‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
یوسف بن جنید تو قاتی الشہیر بہ اخی چلپی ذخیرۃ العقبی: فاضلِ ماہر،فقیہ متجر،جامع علوم و نقلیہ و عقلیہ،حاویٔ فروع واصول تھے۔پہلے سید احمد قریمی تلمیذ حافظ الدین محمد بزازی پھر صلاح الدین معلم با یزید خاں بعد ازاں مولیٰ خسرو محمد بن فراموز سے پڑھا،جب درجہ کمالیت و فضیلت کو پہنچے تو قسطنطیہ میں مدرسۂ قلندریہ کے مدرس مقرر ہوئے،تمام عمر علم اور مطالعہ کتبِ فقہیہ میں مشغولہ رہے۔شرح وقایہ کے حواشی مسمی بہ ذخیرۃ العقبی جو ہمارے ملک میں حاشیۂ چلپی کے نام سے مشہور ہیں تصنیف کیے جن کی تالیف ۸۹۱ھ میں شروع کی اور ۸؍ماہ ذی الحجہ ۹۰۱ھ کو ختم کیا،علاوہ اس کے رسالہ ہدایہ المہتدین نام سے تصنیف کیا جس میں ان الفاظ کو بیان کیا جن کا کہنا کفر ہے۔ جب آپ ۹۰۵ھ میں فوت ہوئے توآٹھ مدارس سے ایک۔۔۔
مزید
یوسف بن جنید تو قاتی الشہیر بہ اخی چلپی ذخیرۃ العقبی: فاضلِ ماہر،فقیہ متجر،جامع علوم و نقلیہ و عقلیہ،حاویٔ فروع واصول تھے۔پہلے سید احمد قریمی تلمیذ حافظ الدین محمد بزازی پھر صلاح الدین معلم با یزید خاں بعد ازاں مولیٰ خسرو محمد بن فراموز سے پڑھا،جب درجہ کمالیت و فضیلت کو پہنچے تو قسطنطیہ میں مدرسۂ قلندریہ کے مدرس مقرر ہوئے،تمام عمر علم اور مطالعہ کتبِ فقہیہ میں مشغولہ رہے۔شرح وقایہ کے حواشی مسمی بہ ذخیرۃ العقبی جو ہمارے ملک میں حاشیۂ چلپی کے نام سے مشہور ہیں تصنیف کیے جن کی تالیف ۸۹۱ھ میں شروع کی اور ۸؍ماہ ذی الحجہ ۹۰۱ھ کو ختم کیا،علاوہ اس کے رسالہ ہدایہ المہتدین نام سے تصنیف کیا جس میں ان الفاظ کو بیان کیا جن کا کہنا کفر ہے۔ جب آپ ۹۰۵ھ میں فوت ہوئے توآٹھ مدارس سے ایک۔۔۔
مزید
علی بن یوسف بالی بن شمس الدین محمد فناری[1]: شہر بروسا میں پیدا ہوئے اور لڑکپن میں تحصیل علم مکے شغل میں مشغول ہوئے اور عنفنوان شباب میں بلاد عجم کی طرف کوچ کیا اور ہرات و بخارا دسمر قند کے علماء و فضلاء سے پڑھا یہاں تک کہ تما علوم میں فوقیت کمالیت حاصل کی اور علم کلام،اصول،فقہ،بلاغت،ریاضی وغیرہ میں اعلیٰ درجہ کے ماہر متجر ہوئے،بعد ازاں بلادِ روم میں اوائل سلطنت محمد خاں میں واپس آئے اور سلطان کی طرف سے بروسا کے مدرس مقرر ہوئے،پھر کچھ مدت بعد وہاں کی قضاء آپ کو دی گئی۔ تدریس کا ڈھنگ آپ کو نہایت عمدہ یاد تھا چنانچہ صاحبِ شقائق اپنے ماموں عبد العزیز بن سید یوسف حسینی مشہور بہ عابد چلپی سے حکایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے مطول پڑھنی شروع کی تھی اور ہر روز مجھ کو ایک۔۔۔
مزید
محمد بن ابراہیم بن حسین نکساری رومی: محی الدین لقب تھا،علوم شرعیہ و فنون عقلیہ کے عالم فاضل اور قرآن شریف کے بجمیع روایات حافظ تھے۔علم حسام الدین تو قاتی اور یوسف بن شمس الدین محمد بن حمزہ فناری اور محمد بن ادمغان وغیرہم سے پڑھا اور شہر قسطمونی میں مدرسہ اسمٰعیلیہ کے مدرس مقرر ہوئے۔ تفسیر سورہ دخان کی تالیف کر کے سلطان بایزد خاں کے پاس بطور ہدیہ کے بھیجی اور صاحب شقائق نے اس تفسیر کی نسبت کہا ہے کہ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مصنف اس کا علم تفسیر میں آیت کبریٰ ہے،علاوہ اس کے شرح وقایہ اور تفسیر بیضاوی پر حواشی لکھ کر قسطنطیہ میں ۹۰۱ھ میں وفات پائی۔’’عالمِ مشہور دہر‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
سعید بن سلیمان کندی: ابی العتائم کنیت تھی،فقیہ جید،محدث کامل، عالم با عمل،فاضل بے مثل تھے،حدیث میں ایک ارجوزہ المسمی بہ شمس المعارف وانس العارف تصنیف فرمایا اور قاہرہ میں اس سے تحدیث کی،وفات آپ کی ۶۱۶ھ میں ہوئی۔’’نور عصر‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولیٰ مصطفیٰ قسطلانی: مسلح الدین لقب تھا۔جمہ علوم میں ماہر متجر تھے جن کو مولانا خضر بیگ وغیرہم سے پڑھا۔جب سلطان محمد خاں نے آٹھ مدارس بناکیے تو ایک میں آپ کو مدرس کیا۔مولیٰ لطفی کہتے ہیں کہ جن دنوں مولیٰ سنان پاشا سے میں طالب علمی کرتا تھا۔ان دنوں ایک وزیر تھا جس کی یہ عادت تھی کہ رات کع علماء و فضلاء کو مجتمع کیا کرتا اور ایک مجلس آراستہ کر کے ان کو غذا لطیف و پاکیزہ کھلاتا۔ایک رات کا ذکر ہے کہ مولیٰ مصلح الدین قسطلانی اور خواجہ زادہ و خطیب زادہ بھی وہاں حاضر تھے اور میں اپنے ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا اس سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا کہ باتوں باتوں میں میں نے یہ بیان کیا کہ میں ایک دفعہ ایسا بیمار ہوگیا تھا کہ مجھ کو خون کا پسینہ آیا اور اس سے میرے پار چات رنگین ہوئگے۔یہ بات سن کر وہ ہنس پڑا جس سے دیگر علماء نے متنبہ ہ۔۔۔
مزید
مولانا محمد بن مولانا شرف الدین محمد عثمان: شمس الدین لقب تھا اور ملازادہ عثمان سے مشہور تھے۔تمام اقسام کے علوم معقول و منقول میں سر آمد علمائے مارواء النہر بلکہ مقتدائے فضلائے عصر تھے۔خاقان منصور کےعہد میں سمر قند سے بہ ارادہ حج ہرات میں وار ہوئے اور منظور نظر خاقان منصور کے ہوکر حج کو تشریف لے گئے اور زیارت حرمین شریفین سے مراجعت فرماکر ہرات میں سکونت اختیار کی اور کئی سال تک مدرسہ سلطانیہ ور مدرسہ خلاصیہ میں شر فوائد علمیہ اور درس مسائل دینیہ میں مشغول رہے،باجود کمال علم اور کبرسنی اور نور زہد تقویٰ کے موصوف بہ تواضع تھے اور ماہِ ربیع الاول ۹۰۱ھ میں وفت پائی۔’’رہبر صلاح اندیش‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولی محمد بن ابراہیم خطیب الشہیر بہ خطیب زادہ: محی الدین لقب تھا۔ فقیہ فاضل،عالمِ متجر،طلیق اللسان،جبری القلب،صاحب محاورہ،فصیح عند المباحثہ تھے۔علوم اپنے باپ تاج الدین ابراہیم بن خطیب،پھر علاؤ الدین طوسی اور خضر بیگ وغیرہ سے پڑھے اور قسطنطیہ کے مدرس مقرر ہوئے پھر سلطان محمد خاں نے آپ کو اپنا معلم بنالیا۔صدر الشریعہ کے اوائل شرح وقایہ اور اوائل شرح مواقف اور مقدمات اربعہ اور شرح مختصر ابن حاجب کے اوائل حاشیہ سید اور کشاف کے حاشیہ سید پر آپ نے حواشی تصنیف کیے اور ایک رسالہ فضائل جہاد اور ایک رسالہ بحث رؤیت وکلام میں تصنیف کیا اور آپ سے احمد بن سلیمان بن کمال پاشا اور محی الدین چلپی بن علی بن یوسف فناری اور عبد الواسع بن خضر وغیرہم نے تفقہ کیا۔وفات آپ کی ۹۰۱ھ میں ہوئی۔’’امامِ حسن گفتار‘‘ تاریخ۔۔۔
مزید