یوسف بن محمد خوارزمی سکاکی: ابو یعقوب کنیت اور سراج الدین لقب تھا۔ ۵۵۵ھ میں پیدا ہوئےصرف،نحو،معانی،بیان،عرض،شعر میں امام محقق اور علوم عجیبہ و فنون عربیہ میں ماہر ماہر اور علوم بلا غت وتسخیر جن و دعوۃ الکواکب دفن طلسمات و سحر و سمیاء و علم کواص الارض اور اجرام سماء میں متجر تھے۔علوم سدید بن محمد حناطی اور محمود بن عبید اللہ بن صاعد مروزی سے پڑھے اور علم کلام کو مختار بن محمود زاہدی سے حاصل کیا۔تصنیفات جلیلہ کیں جن میں سے اجل مصنفات مفتاح العلوم ہے جس میں آپ نے بارہ علم بیان کیے اور نطیر اس کی زمانہ اوائل اواخر میں معدوم ہے جب سلطان چغتائی خاں بن چنگیز خاں حاکم مارواء النہر و حدود و خوارزم و کا شغر و بدخشاں و بلخ وغیرہ نے آپ کے فضائل و کمالات معلوم کیے تو آپ کو اپنا انیس و جلیس بنایا۔ حکایت ہے کہ ایک دن آپ چغتائی خاں کے پاس۔۔۔
مزید
مصطفیٰ بن اور حد الدین: تمام علوم میں فاضل و ماہر اور آپ کی فضیلت کے تمام علماء مقرر تھے علم محمد بن فراموز سے پڑھا،پہلے آٹھ مدارس میں سے ایک کے مدرس ہوئے پھر عہد سلطان با یزید کاں میں قاضی بنے،اگر چہ آپ کی تصنیف و تالیف میں مشتمل نہیں ہوئےمگر تاہم ایک رسالہ تحذیر الفرار عن الوباء میں تصنیف کیا جو آپ کی فضیلت و کمالیت پر شاہد ناطق ہے،وفات آپ کی ۹۱۱ھ میں ہوئی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
محمد بن مصطفیٰ بن حاج حسن: اپنے زمانہ کے بحر علوم،فقیہ کامل اور علم وعلماء کے بڑے محب تھے،علم اپنے زمانہ کے علماء وفضلاء مچل مولیٰ یگان وغیرہ سے اخذ کیا اور بروسا و قسطنطیہ کے مدارس میں درس دیا۔عہدمحمد خاں اور اس کے بیٹے یزیز خاں میں قاضی مقرر ہوئے اور آپ سے جعفر بن ناجی وغیرہ نے اخذ کیا ایک کتاب بطور محاکمہ مابین دوانی و صدر شیرازی اور ایک کتاب صرف میں میزان الصرف کے نام سے تصنیف کی اور مقدمات اربعہ اور تفسیر سورۂ انعام بیضاوی پر حواشی تصنیف کیے اور ۹۱۱ھ میں وفات پائی۔’’مشہور عصر‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
خلیل المعروف بہ خلیلی: بڑے حلیم،متواضع اور خیر پسند تھے،پہلے قسطنطیہ میں آٹھ مدارس میں سے ایک کے مدرس مقرر ہوئے پھر مدرسہ اور نہ میں تبدیل ہوئے بعد ازاں اناطولی میں دار القضاء عسکر کے متولی ہوئے اور اوائل عہد سلیم خاں بن محمد خاں میں درمیان ۹۱۰ھ اور ۹۲۰ھ کے فوت ہوئے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
حسین بن علی واعظ کاشفی الشہری بہ مولیٰ صفی صاحب تفسیر حسینی: کمال الدین یا علاء الدین لقب رکھتے تھے،تمام علوم ظاہری و باطنی اور فنون نقلی ورسمی میں مشارکت عامہ و معرفت تامہ حاصل تھی لیکن علوم نجوم و انشاء میں اپنی نظر نہ رکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ پہلے آپ مائل بہ تشیع تھے پھر مضبوط اہلِ سنت ہوکر حنفی المذہب ہوئے۔آواز نہایت خوش اور صورت دلکش سے وعظ و نصائح میں مشغول رہتے اور عبارات لائقہ میں معانی آیات بینات کلام الٰہی اور عوامض اسرار احادیث حضرت رسالت پناہی کو ظاہر فرماتے تھے۔ہر جمعہ کی صبح کو دار السلطنت سلطانی میں جو ہرات کے چوک میں واقع ہے،وعظ فرماتے اور بعد داسے نماز جمعہ کے جامع مسجد علی شیر میں وعظ کرتے اور شنبہ کے روز مدرسۂ سلطانی میں اور چار شنبہ کے یوم مزار پر پیر محمد خواجہ ابو الولید احمد میں اپنے مواعظ بلیغہ۔۔۔
مزید
بدیع بن منصور قزینی: فخر الدین لقب تھا،اپنے زمانہ کے امام فاصل، فقیہ کامل تھے،ریاست فتویٰ و قضاء کی آپ پر منتہی ہوئی۔فقہ نجم الائمہ بخاری سے حاصل کی۔تصانیف بھی نہایت مفید و معتبر کیں جن میں سے بحر المحیط الموسوم بہ بنیۃ الفقہاء معروف و مشہور ہے۔مختار بن خمود زاہدی مصنف فتاویٰ قنیہ نے آپ سے فقہ پڑھی۔شمس الدین محمد بن علی بن احمد دلودی مالکی تلمیذ سیوطی نے آپ کو طبقات مفسرین میں بیان کر کے احمد بن ابی بکر بن عبدالوہاب ابو عبداللہ بدیع الدین قزینی حنفی کے نام سے موسوم کیا ہے اور کہا ہےکہ آپ ۶۲۰ھ میں سیواس میں مقیم تھے اور وہیں فوت ہوئے۔’’کشاف حقائق‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
حمید الدین بن افضل الدین: بڑے علام فاضل،جامع علوم دینیہ و عقلیہ تھے،پہلے اپنے باپ سے پڑھتے رہے،کپھر محمد بن ادمغان کی خدمت میں حاضر ہوکر مختلف علوم دو فنون م یں کمال حاصل کیا اور مدرسۂ شہر بروسا کے مدرس مقرر ہوئے،پھرآٹھ مدارس میں سے ایک کے مدرس بنے،ب عد ازاں تھوڑی مدت کے بعد سلطان محمد خاں نے آپ کو قاضی فاضل بن محمد بن مصطفیٰ کی جگہ قسطنطیہ کا قاضی مقرر کیا ۔آپ کے تلامذہ م یں سے محی الدین چلپی فناری اور عبد الواسع بن خضر اور حسام الدین حسین بن عبد الرحمٰن وغیرہ معروف و مشہور ہیں،ہدایہ اور اصفہانی کی شرح طوالع ور سید کے حاشیہ شرح مختصر پر نہایت عمدہ حواشی لکھے اور ۹۰۸ھ میں وفات پائی،’’مقبول خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
محمد بن احمد بن عمر بخاری: ظہیر الدین لقب تھا،علوم دینیہ میں اصولاً و فروعاً یگانۂ زمانہ اور محتسب بخاراتھے۔پہلے اپنے باپ احمد بن عمر سے پڑھا،پھر اکابر علماء و فضلاء سے ملاقات کی یہاں تک کہ ظہیر الدین ابی المحاسن حسن بن علی مرغینانی کی خدمت میں پہنچے،وہ آپ کی بڑی عزت کیا کرتے اور آپ کو اکثر لبہ پر مقدم سمجھا کرتے تھے۔آپ نے کتاب فوائد اور فتاویٰ ظہیریہ جو نہایت معتبر اور بہت سے فوائد پر مشتمل ہے،تصنیف کیا اور ۶۱۹ھ میں وفات پائی،’’پیر رہبر‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ) ۔۔۔
مزید
مولانا معین الدین فراہمی: اپنے زمانہ کے عالم فاضل،علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ید طولیٰ اور زہد و تقویٰ میں درجۂ علیار رکھتے تھے،بڑے بڑے خطوط مقفی و مسجع غایت سرعت میں لکھ دیا کرتے تھے،ہر جمعہ کو باد ادائے نماز کے صفہ مقصورہ جامع ہرات میں نہایت مؤثر وعظ کہتے اور در غرمعانی آیات و احادیث کو الماس تقریر فصیح کے ساتھ پروتے تھے۔آپ مجلس وعظ میں امراء ورؤسا کی طرف جو وہاں حاضر ہوتے تھے بالکل ملتفت نہ ہوتے تھے۔آپ کی تصنیفات سے معارج النبوۃ و تفسیر فاتحۃ الکتاب و طلا کار یعنی قصۂ حضرت موسیٰ اور نقرہ کاریعنی قصہ حضرت یوسف مشہور و معروف ہیں۔ بعد وفات آپ کے بھائی قاضی نظام الدین کے حسبِ وصیت ان کی ہر چند آپ کو منصب قضاء کے لیے کہا گیا م گر آپ نے بالکل قبول نا فرمایا۔وفات آپ کی۔۔۔
مزید
عمر بن زید بن بدر بن سعید موصلی: زین الدین لقب تھا،اپنے زمانہ کے شیخ کامل،حافظ حدیث،فقیہ فاضل تھے۔علم حدیث میں ایک کتاب مغنی نہایت تحقیق و تدقیق سے حسن ترتیب ابواب بحذف اسانید تصنیف فرمائی جو آپ کی حیات میں آپ کے پاس پڑھی گئی۔وفات آپ کی ۶۱۹ھ میں ہوئی۔’’امام الوقت‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید