مفتی ملا فیروز معروف بہ پنچہ گنائی بن لوئی گنائی: کاشمیر کے علمائے اجلہ اور فضلائے متجرین سے جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے،ابتداء جوانی میں حرمین شریفین کی زیارت کو تشریف لے گئے اور کچھ مدت تک وہاں رہ کر ہندوستان کو آئے اور بد ایوں میں پہنچ کر ہر چند تحصیل علوم میں مشغول ہوئے لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی، آخر کو خوش قسمتی سے آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی،آپ نے ان سے علم کا سوال کیا،اس پر حضرت خضر چالیس روز آپ کے پاس آئے اور مختلف علوم پڑھاتے رہے یہاں تک کہ فقہ و حدیث و تفسیر وغیرہ علوم میں عالم فاضل ماہر کامل ہوئے۔جب آپ کی فضیلت کا چرچا دور رزدیک پہنچا تو اکبر شاہ نے بہ ہزارمنت والتجاء آپ کو اپنے پاس بلا کر بڑا اعزا وکرام کیا اور کاشمیر کو مفتی اعظم بناکر بھیجدیا جہاں آپ نے اجرائے احکام شریعت کا کمال دیانت و ۔۔۔
مزید
علی بن محمد بن علی رامثی بخاری: نجم العلماء اور حمید الدین الضریر کے لقب سے مشہور تھے،امام کبیر،فقیہ محدث،مفسر،اصولی،جلدی،کلامی،حافظ متقن تھے۔ ماوراء النہر میں علم کی ریاست آپ پر منتہیٰ ہوئی اور آپ کی جلالت کے آوازہ سے زمین کا طبق پُر ہوا۔فقہ شمس الائمہ محمد بن عبد الستار کردری سے پڑھی اور حدیث کو جمال الدین عبید اللہ محبوبی سے سُنا اور آپ سے حافظ الدین عبداللہ بن احمد نسفی صاحب کنز اور ابو الحامد محموب بن احمد بخاری صاحب حقائق شرح منظومہ اور جلا الدین محمد بن احمد صاعدی وغیرہ نے تفقہ کیا۔جامع کبیر اور کتاب نافع اور کتاب منظومہ نسفی کی شرحیں لکھیں اور مواضع مشکہ ہدایہ پر فوائد نام سے حاشیہ لکھا۔وفات آپ کی ۶۶۷ھ میں ہوئی اور امام ابی حفص کبیر کے پاس دفن کیے گئے اور بموجب وصیت کے آپ کو امام حافظ الدین نے قبر میں رکھا اور تقریباً پچاس ہزار آدمیوں کے ساتھ انپر نماز جنازہ کی پڑھی۔’’۔۔۔
مزید
مولیٰ تاج الدین ابراہیم بن عبیداللہ حمیدی[1]: شہر حمید میں نویں صدی کے ابتداء میں پیدا ہوئے اور قسطنطنیہ میں داخل ہوکر وہاں وطن اختیار کیا،علوم مولیٰ نور الدین وغیرہ سے حاصل کر کے فاضل اجل،فقیہ اکمل ہوئے۔پہلے قسطنطنیہ کے مدرسہ ابراہیم رواس میں مدرس مقرر ہوئے پھر مدرسہ قصبہ یلونہ اور مدرسہ قاضی اسوداور مدرسہ سلیمان پاشا واقعہ ازنیق میں مدرس مقرر ہوئے اور وہاں شرح وقایہ پر حواشی لکھے اور ان میں ابن مال پاشا کے اعتراضوں کا خوب جواب لکھا اور جب اس مدرسہ سے علیٰحدہ ہوئے تو ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں چند مواضع سے اقوال جمع کر کے سولہ جگہ پر ابن کمال پاشا پر تردیدی کی اور نیز سید کی شرح مفتاح کا بعض مقامات سے حاشیہ تصنیف کیا اور اس میں بھی ابن کمال پاشا کی تردید کی اور صرف میں شرح مراح تصنیف کی وفات آپ کی ۹۷۳ھ میں ہوئی ۔ ۔۔۔
مزید
علی بن سنجر بغدادی المعروف بہ ابن السباک: شعبان۵۶۱ھ میں پیدا ہوئے،فقیہ فاضل،عالم متجر تھے۔فقہ ظہیر الدین محمد ن عمر بخاری سے اخذکی اور آپ سے مظفر الدین احمد صاحب ’’مجمع البحرین‘‘ نے اخذ کیا۔فقہ میں ایک ارجوزہ تصنیف کیا اور جامع کبیر کی بھی شرح لکھی مگر اس کو کامل نہ کر سکے کہ ۶۰۱ھ یا ۷۰۰ھ میں وفات پائی۔ حدائق الحنفیہ۔۔۔
مزید
مولیٰ صالح بن جلال: چونکہ آپ کے والد ماجد زمرۂ کبار قضاۃ میں سے تھے،اس لیے آپ کو ابتداء سے ہی برے بڑے علماء وفضلاء سے صحبت رہی لیکن آپ نے زیدہ تر مولیٰ خیر الدین معلم سلطان سلیمان کی ملازمت اختیار کی اور مدت تک ان کی خدمت میں رہ کر علوم مختلفہ اور فنون متعددہ حاصل کیے اور فائق براقران اور افاضل روزگار ہوئے،پہلے اورنہ میں مدرسۂ سراجیہ کے پچیس روپیہ تنخواہ پر مدرس ہوئے پھر قسطنطنیہ میں مدرسۂ مراد پاشا میں تیس روپیہ کی تنخواہ پر تشریف لے گئے وہاں سے مدرسہ محمود پاشا میں چالیس روپیہ پر تبدیل ہوئے، جہاں آپ کی پچاس روپیہ تک ترقی ہوئی بعد ازاں آتھ مدارس میں سے ایک کے مدرس مقرر ہوئے پھر سلطان سلیمان کی طرف سے بعض کتب گارسیہ کے ترکی میں ترجمہ کرنے پر مامور ہوئے جس کو آپ نے تھوڑی ہی مدت میں نہایت کوبی سے انجام دیا،جس پر آپ کو سلطان با یزید خاں ک۔۔۔
مزید
یوسف قرہ صوی: نور الدین لقب تھا۔عالم فاضل،حق گو،متورع و متشرع تھے،علوم مولیٰ مصطفیٰ خواجہ زادہ اور سنان پاشا وغیرہ سے حاصل کیے اور مدارس بروسا واسکوب و اور نہ وقسطنطنیہ کے مدرس مقرر ہوئے اور سلطان سلیم نے آپ کو قضاء کا منصب عطا فرمایا۔فقہ میں ایک کتاب مرتضیٰ نام تصنیف کی جس میں مختار مسائل کو جمع کیا اور بقول مختار ۹۷۲ھ میں وفات پائی۔’’زینتِ شہر‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
فضل اللہ بن حسین[1]تورپشتی: شہاب الدین لقب تھا،اپنے زمانہ کے امام محقق،شیخ مدقق محدث ثقہ،فقیہ جید صاحب تصانیف کثیرہ تھے،بغوی کی مصابیح الستہ کی مسمّٰی بالبسر نہایت عمدہ شرح تصنیف کی اور کتاب مطلب الناسک فی علم المناسک چالیس باب میں تصنیف فرمائی۔آپ کی تاریخ وفات’’محدث زیب ملک‘‘ ہے۔ 1۔ ابو عبداللہ فضل الہ بن حسن بن حسین تور پشتی’’دستور الاعلام‘‘بدیۃ العارفین’’(مرتب)‘‘ حدائق الحنفیہ۔۔۔
مزید
مولی محمد بن محمد الشہیر بہ عرب زادہ رومی: اپنے زمانہ کے علمائے فحول اور اکابر دہر میں سے صاحب تحقیق و تدقیق تھے،پہلے شہر بروسا پھر مدرسہ محمود پاشا واقعہ قسطنطنیہ پھر آٹھ مدارس میں سے ایک کے پھر مدرسہ سلیمانیہ میں مدرس مقرر ہوئے اخیر کو قاہرہ کی قضاء آپ کے سپرد ہوئی اور پچاس سال کی عمر میں ۹۶۹ھ میں آپ بحالت طغنای دریاکشتی میں سوار ہوئے کہ کی ا یک کشتی ٹوٹ گئی اور آپ شہید ہوگئے۔’’شیخ جہاں‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کی تصنیفات سے شح وقایہ و ہدایہ اور ہدایہ کی شرح عنایہ اور فتح القدیر اور سید کی شرح مفتاح اور مطول وغیرہ پر حواشی یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
میر سید عبدالاول بن علاء حسینی: فقیہ محدث،جامع علوم عقلی ونقلی اور فنون ظاہری اور باطنی تھے آباء واجداد آپ کے قصبۂ زید پور علاقہ جونپور کے رہنے والے تھے جو ولایت دکن میں جاکر سکونت پذیر ہوئے اور آپ وہیں پیدا ہوئے اور وہاں کے علماء و فضلاء سے تحصیل علوم کر کے فضیلت و کمالیت کو پہنچے اور علم باطن میں سید محمد گیسودراز کی بعض اولاد کے،جو دکن میں تھے،مرید ہوئے،آخر حال گجرات میں تشریف لائے اور گجرات سے حرمین شریفین کی زیارت کو نہضت فرماہوئے اور حج کر کے پھر احمد آباد میں واپس آئے نہایت معمر ومسن تھے،اخیر عمر میں غربت اور انکسار آپ کے حال پر ایسا غالب آیا جس سے آپ کو علوم رسمیہ سے بالکل ذہول ہوگیا اور خان خاناں محمد بیرم خان شہید کی استدعا سے جو علماء و فضلاء کا محب اور غرباء فقراء کا بڑا مربی تھا،دہلی کو تشریف لے گئے جہاں۔۔۔
مزید
محمد بن یحییٰ حلبی تاذقی: علامۂ عصر،فرید دہر،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، حاویٔ معالم فروعیہ واصولیہ تھے،بعد تکمیل کے منشیر علوم اور تدریس میں مشغول رہے اور کتاب قول المہذب فی بیان مافی القرآن من الرومن المعرب تسنیف فرمائی۔ وفات آپ کی ۹۶۳ھ میں ہوئی۔’’مفرت تکوین‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید