محی الدین[1]بن محمد بن الیاس الشہیر بہ چوی زادہ: اپنے زمانہ کے امام محقق،فقیہ مدقق،محدث،مفسر،اصولی،فروعی،ماہر علوم ریاضیات و طبیعات تھے۔ مبانی علوم کے اپنے باپ سے جو ایک مدرس جید اور مشتہر بہ چوی تھا،پڑھے،پھر سعدی چلپی تلمیذ حاججی حسن شاگرد محمد بن ادمغان تلمیذ خضر بیگ سے حاصل کیے اور قسطنطنیہ و ادرنہ کے مدرس مقرر ہوئیے۔۹۴۴ھ میں جب سعدی چلپی نے وفات پائی۔’’وجیہ خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ نے اکثر کتب متداولہ پر تعلیقات لکھیں جن میں سے تعلیقات تلویح وغیرہ ہیں۔آپ کے تلامذہ سے علی بن قاضی امر اللہ الشہیر بہ عتابی زادہ اور محمد شاہ چلپی ہیں۔ 1۔ محی الدین لقب،محمد بن الیاس نام شیخ الاسلام کے عہدے پر بھی رہے۔آپ کے بیٹے محمد (۹۳۷۔۹۹۵) پوتے محمد آفندی متوفی ۱۰۶۱ھ اور پر پوتے عطاء اللہ آفندی۔۔۔
مزید
آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ شرف الدین بوعلی شاہ قلندر رحمۃاللہ علیہ کے والد محترم ہیں آپکا مکمل اسم گرامی السّید محمدابوالحسن شاہ فخرالدین فخر عالم، محمد ثانی محبوبی ہے اور فخرالدین محبوبی کے نام سے معروف ہیں ۔آپ مدینہ منورہ کوچہ ہاشمی سے نجف عراق) پھر (ایران) خسروی، کرمانشاہ، ہمدان، کرمان ،ماحان، خراسان ،میمہ (جہاں آپ کے والد محترم حضرت السیّد ابوالقاسم یحییٰ کا مقبرہ ہے) سے (افغانستان) ہرات، بلخ (مزار شریف) سے سالنگ راستے سے ہو کر کابل، ولایت لوگر اریوب سے ہوتے ہوئے پارہ چنار، کرم ایجنسی (جس کا پرانا نام طلا و خراسان تھا) کے ایک گاؤں کڑمان (قدیمی نام کرمان) میں ہمراہ دو فرزند حضرت السیّدشاہ انور اور حضرت بو علی شاہ قلندر آباد ہوۓ۔اور ہندوستان میں آپکا فیوض جاری ہوا (فیضانِ صوفیاء)۔۔۔
مزید
محمد بن مصلح الدین مصطفیٰ قوجوی المعروف بہ شیخ زادہ رومی: محی الدین لقب تھا،جامع معقول و منقول اور حاوی فروع واصول تھے۔مدت تک قسطنطنیہ میں مدرس رہے۔وقایہ و مفتاح و سراجیہ کی شرحیں تصنیف کیں اور تفسیر بیجاوری پر نہایت مفید اسہل عبارت میں حواشی تصنیف کیے جوآٹھ جلد میں تھے پھر ان میں تصرف کر کے ان کو زیادہ کیا چنانچہ دونوں نسخے مشتہر ہوگئے اور کاہوں نے ان کو قلم بند کرلیا یہاں تک دونوں م یں کچھ فرق نہیں سمجھا جاتا۔وفات آپ کی ۹۵۰ھ یا ۹۵۱ھ میں ہوئی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
قاضی احمد بن حمزہ المعروف بہ عرب چلپی: شمس الدین لقب تھا،فقیر فاضل،محدچ کامل تھے۔پہلے موسیٰ چلپی وغیرہ سے پڑھا پھر قاہرہ میں اکر کتب حدیث کی قراء کی اور بلاد روم میں تدریس نشر علوم میں مشغول رہ کر ۹۵۰ھ میں وفات پائی۔’’ہادیٔ خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کی تصنیفات سے حواشی شرح وقایہ وغیرہ یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ) ۔۔۔
مزید
عبدالواسع بن خضر: فقیہ اجل،فاضل اکمل تھے۔لطف اللہ توقاقی وغیرہ سے علم کا اشتغال کیا پھر عجم میں گئے اور ہرات میں تفتازانی سے علوم و فنون کی تکمیل کر کے اواخر یام سلطنت بایزید خاں میں بلاد روم میں واپس تشریف لے گئے، جب سلیم خاں تخت نشین ہوا تو اس نے قسطنطنیہ میں محمود پاشا کا مدرسہ آپ کو دیا پھر عسکرروم ایلی کا قاضی نایا بعد ازاں آٹھ مدارس میں سے ایک مدرسہ آپ کو عطا کیا،جب سلیمان خاں تخت نشین ہوا تو اس نے آپ کو قسطنطنیہ کی قضاوی اور پھر آپ کو پشن یاب کر کے سو درم روزانہ آپ کا وظیفہ مقرر کیا۔آپ نے مکہ معظمہ میں ہجرت کر کے اقامت اختیار کی اور مکہ میں ہی ۹۴۵ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
سعداللہ بن عیسٰی بن امیر خاں رومی المعروف بہ سعدی چلپی: شہر قسطمون میں پیدا ہوئے پھر قسطنطنیہ میں آئے اور محمد بن حسن بن عبدالصمد سامسونی سے علوم حاصل کیے یہاں تک کہ میدان علم کے شہسوار اور اپنے ہم عصروں پر فائق ہوئے،مدت تک مدارس قسطنطنیہ اور نہ اور بروسا کے مدرس مقرر رہے اور افتاء کا کام آپ کے سپرد رہا اور ۹۴۵ھ میں وفات پائی۔’’بحر سعادت‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ نے عنایہ شرح ہدایہ اور تفسیر بیضاری پر حواشی لکھے جن کو آپ عزیز شاگرد مولیٰ عبد الرحمٰن بن علی نے جب وہ قسطنطنیہ کے قاضی ہوئے،مع کیا۔علاوہ ان کے اور رسائل اور تحریرات معتبرہ تصنیف کیں جن کا تمیمی نے اپنے طبقات میں ذکر کیا۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولیٰ عصام الدین ابراہیم بن محمد بن عرب شاہ اسفرائنی: فقیہ کامل،عالم فاضل،صاحب تصانیف شہیرہ تھے،شرح عقائد نسفی اور تفسیر بیضاوی پر حواشی لکھے۔شرح وقایہ کی شرح اور تلخیص المعانی کی شرح اطول نام تصنیف کی،ان کے سوا اور بہت سی کتابیں و رسالے تصنیف کیے اور ۹۴۴ھ میں وفات پائی۔ ’’فخر الدین‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
محمد قرہ باغی: محی الدین لقب تھا،عالمِ اجل،فاضل اکمل تھے،علوم اپنے شہر کے علماء سے پڑھے پھر روم میں آکر یعقوب بن سید علی شارح شرعۃ الاسلام سے تکمیل کی اور ازنیق میں مدرس مقرر ہوئے اور اسی جگہ ۹۴۳ھ میں وفات پائی۔ ’’فقیہ مذاہب‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کی تصنیفات سے حواشی تفسیر کشاف اور تفسیر بیضاوی اور تلویح اور ہدایہ اور شرح وقایہ یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
سید عبداللہ بن سید عبد الخالق بھاکری: اعاظم سادات اور کبرائے مشائخ طریقہ قادریہ سے فقیہ محدث جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے،تمام عمر تعلیم علوم اور تدریس فقہ و حدیث اور تفسیر میں مشغول رہے اور کسی سائل کو اپنے دروازہ فیض کاشانہ سے رونہ کیا۔وفات آپ کی ۹۴۳ھ میں ہوئی اور مزار آپ کا لاہور میں قریب روضہ سید جان محمد حضور کے واقع ہے۔’’فقیہ رازِ نہفۃ‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
احمد بن عبداللہ قریمی: عالم فاضل،فقیہ محدث،مفسر تھے۔جب حافظ الدین محمد بزازی صاحب فتاویٰ بزازیہ شہر قریم میں آکر چندے قیام پذیر ہوئے تو ان سےآپ نے علم پڑھا اور ان کے چلے جانے کے بعد ۸۰۶ھ میں شرف الدین بن کمال قریمی تلمیذ بزازی سے حاصل کیا پھر عہد سلطان مراد خاں بن محمد خاں روم کے ملک میں آئے اور مدرسہ مرزیفون کے مدرس مقرر ہوئے جہاں آپ سے یوسف بن جنید نے علم پڑھا۔بعد ازاں عہد سلطان محمد خاں بن مراد خاں میں قسطنطنیہ میں تشریف لائے اور بادشاہ کی طرف سے آپ کا پچاس درم روزینہ مقرر ہوا،یہاں بھی مدرسہ میں پڑھاتے تھے اور جہا چاہتے تھے ذکر الٰہی کرتے تھے۔کتاب تلویح اور شرح عقائد نسفی اور سید عبداللہ کی شرح لب پر آپ نے حواشی لکھے۔صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شرح عقائد نسفی کے حواشی لکھ رہے تھے تو ۹۴۳ھ میں آپ نے وفات پائی۔’۔۔۔
مزید