جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


نعت   (894)





ہے کلام الہی میں شمس الضحے

ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضُحٰی تِرے چہرۂ نور فزا کی قسمقسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف ِ دوتا کی قسم تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تِری خلق کو حق نے جمیل کیاکوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تِرے خالقِ حُسن و ادا کی قسم وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملاکہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم ترا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے رُوحِ امیںتو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تِرامجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعامجھے جلوۂ پاکِ رسول دکھا تجھے اپنی ہی عزّ و عُلا کی قسم مِرے گرچہ گناہ ہیں حدسے سوا مگر اُن سے امید ہے تجھ سے رَجاتو رحیم ہے اُن کا کرم ہے گوا وہ کریم ہیں تیری ۔۔۔

مزید

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی! کیوں کر اتریں پار ہم کس بَلا کی مے سے ہیں سرشار ہمدن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم تم کرم سے مشتری ہر عیب کےجنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تمدوستوں کی بھی نظر میں خار ہم لغزشِ پا کا سہارا ایک تمگرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم صَدقہ اپنے بازوؤں کا المددکیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم دم قدم کی خیر اے جانِ مسیحدر پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضورجانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوندمرمٹے پیاسے ادھر سرکار ہم اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دوہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم ہاتھ اُٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریمہیں سخی کے مال میں حق دار ہم چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کیآؤ دیکھیں سیرِ طور و نار ہم ہمّت اے ضعف ان کےد ر پر گرکے ہوںبے تکلّف سایۂ دیوار ہم با عطا تم شاہ تم مختار تمبے نوا ہم زار ہم ناچار ہم تم ۔۔۔

مزید

عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاںعرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں جا بہ جا پرتو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاںدن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤںعرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں دب کے زیرِ پا نہ گنجایش سمانے کو رہیبن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاججس کی خاطر مرگئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں دو قمر دو پنجۂ خور دو ستارے دس ہلالان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں ہائے اس پتھر سے اس سینے کی قسمت پھوڑیےبے تکلّف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں تاجِ روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریںرکھتی ہیں وَاللہ! وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زلزلہ جاتا رہارکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آ گئیکر چکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں اے رؔضا طوفانِ محشر۔۔۔

مزید

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامنیا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن بہہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پرکہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن اشک بر ساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیمیا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہر پہ ہجومبیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضوراللہ اللہ حَلَبِ جیب و تتارِ دامن تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماںخلشِ دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ جیب نہیںمہرِ عارض کی شعاعیں ہیں نہ تارِ دامن اشک کہتے ہیں یہ شیدائی کی آنکھیں دھو کراے ادب گردِ نظر ہو نہ غبارِ دامن اے رؔضا! آہ وہ بلبل کہ نظر میں جس کیجلوۂ جیب گل آئے نہ بہارِ دامن حدائقِ بخشش۔۔۔

مزید

پھر کے گلی گلی تباہ

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوںدل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوںسوتے ہیں ان کے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کوروئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائیں کیوں یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستمخوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھیچھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خداجس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے نا گوارچھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رُلائے کیوں یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیںمنّتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمرجو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیبمیری بلا بھی ذ۔۔۔

مزید

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونقترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق رہے نہ عفو مںچ پھر ایک ذرّہ شک باقیجو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمالفقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق تمہارے نور سے روشن ہوئے زمنی و فلکییہ جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق زبانِ حال سے کہتے ہںد نقشِ پا اُن کےہمںن ہںے چہرۂ غلمان و حور کی رونق ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگںحبہارِ جنت و حور و قصور کی رونق ضاا زمنو و فلک کی ہے جس تجلّی سےالٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق ییٰ فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہےییٰ ہے حسن تجلّی و نور کی رونق حضور ترتہ و تاریک ہے یہ پتھر دلتجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاںوہی ہں مجلسِ روزِ نشور کی رونق کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوےفروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفےٰ کی ہےحسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق ۱۔ سراج ۔۔۔

مزید

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تکتو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک وہ جب تشریف لائے گھرسے در تکبھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک دُہائی ناخداے بے کساں کیٔکہ سلاکبِ اَلم پہنچا کمر تک الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفتپُھنکے سنہک جلن پہنچے جگر تک نہ ہو جب تک تمہارا نام شاملدعائںے جا نہںا سکتںے اَثر تک گزر کی راہ نکلی رہ گزر مںقابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک خدا یوں اُن کی اُلفت مںں گما دےنہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑجمالِ یار سے ترنی نظر تک تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولتتری رحمت کا پاھسا ابر تک نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھیالٰہ آباد سے احمد نگر تک تمہارے حسن کے باڑے کے صدقےنمک خوار ملاحت ہے قمر تک شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوےشبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک بلائے جان ہے اب ویرانیِ دلچلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک نہ کھول آنکھںل نگاہِ شوقِ ناقصبہت پردے ہںن حسنِ جلوہ۔۔۔

مزید

دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے

دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئےمرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئےتو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئےمرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہیمری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئےمجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دےوہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئےسببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیںنہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئےکھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کےمرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئےنہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھاوہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئےمجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کاکہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئےجو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیںتمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئےجو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کومرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئےیہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے۔۔۔

مزید

خدا وند جہاں جب خود ہےپیارا تیری صورت کا

خدا وند جہاں جب خود ہےپیارا تیری صورت کا تو عالم کیوں نہ ہو بندہ ترے حسن و ملاحت کا شرف حاصل ہوا سرکار تم سے جس کو بیعت کااسے مژدہ ملا حق سے دخول قصر جنت کا جو خالی ہاتھ آتے ہیں مرادیں لیکے جاتے ہیںتمہارے درپہ ایک میلہ لگا ہےاہلِ حاجت کا جو ہاتھ آٹھا ہوا ہے ساری خلقت کا تری جانب بتاتا ہے کہ تو قاسم ہے رب کی جملہ نعمت کا زمیں سے عرش تک گونجے دو عالم پڑ گئی ہلچلبجا کعبہ میں نقارہ جو سلطان رسالت کا کہیں صحرا میں موج آئی کہیں دریا میں گرد اٹھیکہیں بت ہوگئے اوندھے عجب عالم تھا شوکت کا بتوں کو پوجنے والے بنے دم میں خدا والےزبانِ پاک سے جس دم سنا دعویٰ نبوت کا خدا کے نام کو پھیلا دیا سارے زمانہ میں مچا تھا شور دنیا میں بہت شرک و ضلالت کا وہ اپنی روشنی سے جگمگا دیتا ہے دنیا کوقمر پر ایک پر تو پڑگیا تھا انکی طلعت کا تو وہ پیارا خدا کا ہے کہ پیارے تیرے صدقے ہیںہوا سب امتوں سے فضل بڑھ کر تی۔۔۔

مزید

خدا نے جس کے سرپرتاج رکھا اپنی رحمت کا

خدا نے جس کے سرپرتاج رکھا اپنی رحمت کا درود اس پر ہو، وہ حاکم بنا ملک رسالت کا وہ ماحی کفر و ظلمت شرک و بدعات و ضلالت کاوہ حافظ اپنی ملت کا وہ ناصر اپنی امت کا مداوا کیسے فرمائے کوئی بیمارِ فرقت کا کہ دیدار نبی مرہم ہے اس دل کی جراحت کا اثر کیا ہو سکے گا مہر محشر کی حرارت کاہمارے سر پہ ہوگا شامیانہ انکی رحمت کا کبھی دیدار حق ہوگا کبھی نظارہ حضرت کا ہمیں ہنگامۂ عیدین ہوگا دن قیامت کا نہ کیو ں ہو آشکار تیرا جلوہ ذرہ ذرہ میںشہنشاہِ مدینہ تو ہےپر تو نورِ وحدت کا دمِ آخر سرِ بالیں خرامِ ناز فرماؤخدارا حال دیکھو مبتلائے وردِ فرقت کا دمِ آخر سر بالیں یہ فرماتے ہوئے آؤنہ گھبرا خوفِ مرقدسےنہ کر کھٹکا قیامت کا ہمیں بھی ساتھ لےلو قافلہ والو ذرا ٹھہروبہت مدت سے ارماں ہے مدینے کی زیارت کا میر آنکھیں مدینے کی زیارت کو ترستی ہیںچمک جائے الٰہی اب تو تارا مری قسمت کا قسم حق کی وہ دن عیدین سے بڑ۔۔۔

مزید

دو عالم میں روشن ہے اکا تمہارا

دو عالم میں روشن ہےاکا تمہارا ہوا لامکاں تک اجالا تمہارا نہ کیوں گائے بلبل ترانہ تمہاراکہ پاتی ہے ہر گل میں جلوہ تمہارا زمیں والے کیا جانیں رتبہ تمہارا ہے اونچا فلک سے پھر یرا تمہارا پڑھا بے زبانوں نے کلمہ تمہاراہے سنگ و شجر میں بھی چرچا تمہارا چھڑائے گا غم سے اشارہ تمہارااتارے گا پل سے سہارا تمہارا تمہیں ہو جوابِ سوالاتِ محشرتمہیں کو پکارے گا بندہ تمہارا فترضےٰ کی یہ پیاری پیاری صدا ہےکہ ہوگا قیامت میں چاہا تمہارا مرے پاس بخشش کی مہری سند ہےیہ کہتا ہے خطِ شفیعا تمہارا پھیریں کس لیے تشنہ کامانِ محشرہے لبریز رحمت کا دریا تمہارا بہت خؤش ہیں عشاق جب سے سنا ہےقیامت میں ہوگا نظارا تمہارا نہیں ہے اگر زہد و طاعت تو کیا غموسیلہ تو لایا ہوں مولےٰ تمہارا ہو تم حاکم و فاتح باب رحمتکہ ہے وصف انا فتحنا تمہارا عمل پوچھے جاتے ہیں سرکار آؤکہیں ڈر نہ جائے نکما تمہارا جو انبار عصیاں ہیں سر پر۔۔۔

مزید

رشک قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں

رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوںذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں درِّ نجف ہوں گوہَرِ پاکِ خوشاب ہوںیعنی ترابِ رہ گزرِ بو تراب ہوں گر آنکھ ہوں تو اَبر کی چشمِ پُر آب ہوںدل ہوں تو برق کا دلِ پُر اضطراب ہوں خونیں جگر ہوں طائرِ بے آشیاں، شہا!رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں بے اصل و بے ثبات ہوں بحرِ کرم مددپروردۂ کنارِ سراب و حباب ہوں عبرت فزا ہے شرمِ گنہ سے مِرا سکوتگویا لبِ خموشِ لحد کا جواب ہوں کیوں نالہ سوز لَے کروں کیوں خونِ دل پیوںسیخِ کباب ہوں نہ میں جامِ شراب ہوں دل بستہ بے قرار جگر چاک اشک بارغنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپا ہوں سحاب ہوں دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتردفتر میں عاصیوں کے شہا! انتخاب ہوں مولیٰ دہائی نظروں سے گر کر جلا غلاماشکِ مژہ رسیدۂ چشمِ کباب ہوں مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیںدردا! میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں صَدقے ہوں اس پہ نار سے دے گا جو مخلصیبلبل نہ۔۔۔

مزید