پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوںکیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں قصرِ دَنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیںرُوحِ قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیںصبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگاچھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کرمانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں دل کو ہے فکر کس طرح مُردے جِلاتے ہیں حضوراے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گلکام ہے ان کے ذِکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئےلا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رؔضا کہ یوں (حدائقِ بخشش) ۔۔۔
مزید
یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوںبیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئیپوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بَن میں ٹھگوں کے آ بسوپھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں باغِ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آجقمریِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلدسوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میںنرگسِ مست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں تو نے تو کر دیا طبیب آتشِ سینہ کا علاجآج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں فکرِ معاش بد بلا ہولِ معاد جاں گزالاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہواورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں حور جناں سِتم کیا طیبہ نظر میں پھر گیاچھیڑ کے پَردۂ حجاز دیس کی چیز ۔۔۔
مزید
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیںتیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جو تِرے در سے یار پھرتے ہیںدر بہ در یوں ہی خوار پھرتے ہیں آہ کل عیش تو کیے ہم نےآج وہ بے قرار پھرتے ہیں ان کے ایما سے دونوں باگوں پرخیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں ہر چراغِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاج دار پھرتے ہیں جان ہیں جان کیا نظر آئےکیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پرلاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں وردیاں بولتے ہیں ہرکارےپہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہممول کے عیب دار پھرتے ہیں ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاںپانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں بائیں رستے نہ جا مسافر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں جاگ سنسان بَن ہے رات آئیگرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں کوئی کیوں پوچھے تیری بات رؔضاتجھ سے کتّے ہزار پھرتے ہیں ۔۔۔
مزید
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیںجس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں جلتے بھجا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہوجب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گےاب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمھاری جانب کشتی تمھیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیے ہیں دولھا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکومشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سرد ہوگارو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رؔضا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ۔۔۔
مزید
ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میںسنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں بے نواؤں کی نگاہیں ہیں کہاں تحریرِ دسترہ گئیں جو پا کے جودِ یزالی ہاتھ میں کیا لکیروں میں ید اللہ خط سرو آسا لکھاراہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں جودِ شاہِ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپکیا عجب اڑ کر جو آپ آئے پیالی ہاتھ میں ابرِ نیساں مومنوں کو تیغِ عریاں کفر پرجمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیںدو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الٰہی! جھوم کرجب لِوَاءُ الْحَمْد لے امّت کا والی ہاتھ میں ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضائے کلیمموج زن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں وہ گراں سنگی قدرِ مِس وہ ارزانیِ جودنوعیہ بدلا کیے سنگِ ولالی ہاتھ میں دستگیرِ ہر دو عالم کر دیا سبطین کواے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیالی ہاتھ میں آہ وہ عالم کہ آنکھیں ب۔۔۔
مزید
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیںمصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں ہوں مسلماں گرچہ ناقص ہی سہی اے کاملو!ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں غنچے مَآ اَوْحٰی کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں اُس میں زم زم ہےکہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیشکثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں پنجۂ مہرِ عرب ہے جس سے دریا بہہ گئےچشمۂ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں ایسا امّی کس لیے منّت کشِ استاد ہوکیا کفایت اُس کو اِقْرَأْ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں اوس مہرِ حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں ہے انھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار وہ نہ تھے عالَم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالَم نہیں سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رؔضاخواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں (حدائقِ بخشش)۔۔۔
مزید
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیںیہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیِ دل و جاں نہیںکہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیںوہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقرجو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں کرے مصطفیٰ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیںکہ میں کیا نہیں ہوں محمدی! ارے ہاں نہیں تِرے آگےیوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑےکوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیںکوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرومگر اے مدینے کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں ہے انھیں کے نو۔۔۔
مزید
رخ دن ہے یا مہرِ سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیںشب زلف یا مشکِ ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاںحیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں حق یہ کہ ہیں عبدِ الٰہ اور عالمِ امکاں کے شاہبرزخ ہیں وہ سرِّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں بلبل نے گل اُن کو کہا قمری نے سروِ جاں فزاحیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمربے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ڈرتا تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزِ جزا دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں کوئی ہے نازاں زہد پر یا حُسنِ توبہ ہے سِپریاں ہے فقط تیری عطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں دن لَہْو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھےشرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیاشکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ہے ۔۔۔
مزید
وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیںاُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھومصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارےانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکارکہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیمسنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچامرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاریجوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی د۔۔۔
مزید
زائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو آنکھیں اندھی ہوئی ہیں اُن کو ترس جانے دو سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتیبوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں نغمۂ ’’قُم‘‘ کا ذرا کانوں میں رس جانے دو ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو گھٹریاں توشۂ امّید کی کس جانے دو دیدِ گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پرہم صفیرو! ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو آتشِ دل بھی تو بھڑکاؤ ادب واں نالوکون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو یوں تنِ زار کے در پے ہوئے دل کے شعلو شیوۂ خانہ براندازیِ خس جانے دو اے رؔضا! آہ کہ کیوں سہل کٹیں جرم کے سالدو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو (حدائقِ بخشش)۔۔۔
مزید
چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسوحور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو کی جو بالوں سے تِرے روضے کی جاروب کشیشب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو ہم سیہ کاروں پہ یا رب! تپشِ محشر میں سایہ افگن ہوں تِرے پیارے کے پیارے گیسو چرچے حوروں میں ہیں دیکھو تو ذرا بالِ براق سنبلِ خلد کے قربان اتارے گیسو آخرِ حج غمِ امّت میں پریشاں ہو کرتیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوشکہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائےچھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمھارے گیسو کعبۂ جاں کو پنھایا ہے غلافِ مشکیں اُڑ کر آئے ہیں جو ابرو پہ تمھارے گیسو سلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیںسجدۂ شکر کے کرتے ہیں اشارے گیسو مشک بو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑا ان سےحوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو دیکھو قرآں میں شبِ قدر ہے تا مطلعِ فجر یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو بھینی۔۔۔
مزید
آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناںقابو میں نہیں دلِ پریشاں یاد آئی تجلیِ سرِ طورآنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور یا رب یہ کدھر سے چاند نکلااُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا کس چاند کی چاندنی کھِلی ہےیہ کس سے میری نظر ملی ہے ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کایا رب یہ کہاں خیال پہنچا آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میںبجلی سی چمک گئی نظر میں آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالمیاد آنے لگا ہے کس کا عالم اب میں دلِ مضطرب سنبھالوںیا دید کی حسرتیں نکالوں اللہ! یہ کس کی انجمن ہےدنیا میں بہشت کا چمن ہے ہر چیز یہاں کی دل رُبا ہےجو ہے وہ ادھر ہی دیکھتا ہے شاہانِ زمانہ آ رہے ہیںبستر اپنے جما رہے ہیں پروانوں نے انجمن کو چھوڑابلبل نے چمن سے منہ کو موڑا ہے سرو سے آج دُور قمریآئینوں کو چھوڑ آئی طوطی عالم کی جھکی ہوئی ہے گردنپھیلے ہیں ہزاروں دست و دامن مظلوم سنا رہے ہیں فریادہے لائقِ لطف حالِ ناشاد بے داد و ستم کی داد دیجیےلل۔۔۔
مزید