باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہےکیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہےاُن کے اَبرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہےناخنوں میں ترے اِعجازِ مسیحائی ہے سر بالیں اُنھیں رحمت کی اَدا لائی ہےحال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے جانِ گفتار تو رفتار ہوئی رُوحِ رواںدم قدم سے ترے اِعجازِ مسیحائی ہے جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمالاے حسیں تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے تیرے جلوؤں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالمتابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئیجان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے سر سے پا تک تری صورت پہ تصدق ہے جمالاُس کو موزونیِ اَعضا یہ پسند آئی ہے تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضاے کلیمتیرے ہاتھوں کا دیا فضلِ مسیحائی ہے دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتےبے کسوں کی اِسی سرکار میں سنوائی ہے آپ ۔۔۔
مزید
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہےبڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دِکھانے کےمگر اُن کا کرم ذرّہ نواز و بندہ پرور ہے خبر کیا ہے بھکاری کیسی کیسی نعمتیں پائیںیہ اُونچا گھر ہے اِس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کرطوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگِ اسود کاہمارا منہ اور اِس قابل عطاے ربِ اکبر ہے جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کرچلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمن کا گھر ہے مقامِ حضرتِ خلّت پدر سا مہرباں پایاکلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوشِ مادر ہے لگاتا ہے غلافِ پاک کوئی چشم پُر نم سےلپٹ کر ملتزم سے کوئی محو وصلِ دلبر ہے وطن اور اُس کا تڑکا صدقے اس شامِ غریبی پرکہ نورِ رُکن شامی رُوکشِ صبحِ منور ہے ہوئے ایمان تازہ بوسۂ رُکن یمانی سےفدا ہو جاؤں یمن و ایمنی کا پاک منظر ہے یہ زمز۔۔۔
مزید
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہےنسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیامرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیںقدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِلسحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہتنسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲبہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کیکھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سےنظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائیکہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کےوہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھرہے نہ پوچھو ہم کہ۔۔۔
مزید
ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہےہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہےکچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کاجس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دےٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دےیہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کرہو جاؤں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر فکرِ بلند سے ہو عیاں اقتدارِ اوجچہکے ہزار خامہ سرِ شاخسارِ اوج ٹپکے گل کلام سے رنگِ بہارِ اوجہو بات بات شانِ عروج افتخارِ اوج فکر و خیال نور کے سانچوں میں ڈھل چلیںمضموں فرازِ عرش سے اُونچے نکل چلیں اِس شان اِس اَدا سے ثناے رسول ہوہر شعر شاخِ گل ہو تو ہر لفظ پھول ہو حُضّار پر سحابِ کرم کا نزول ہوسرکار میں یہ نذرِ محقر قبول ہو ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاںسب حاملان۔۔۔
مزید
وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری عیاں ہونے لگے انوارِ باری نقیبوں کی صدائیں آ رہی ہیںکسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگےچلے آتے ہیں کہتے آگے آگے فدا جن کے شرف پر سب نبی ہیںیہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں یہی والی ہیں سارے بیکسوں کےیہی فریاد رس ہیں بے بسوں کے یہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیںیہی بند اَلم کو توڑتے ہیں اَسیروں کے یہی عقدہ کشا ہیںغریبوں کے یہی حاجت روا ہیں یہی ہیں بے کلوں کی جان کی کلانہیں سے ٹیک ہے ایمان کی کل شکیب بے قراراں ہے انہیں سےقرارِ دل فگاراں ہے انہیں سے اِنہیں سے ٹھیک ہے سامانِ عالماِنہیں پر ہے تصدق جانِ عالم یہی مظلوم کی سنتے ہیں فریادیہی کرتے ہیں ہر ناشاد کو شاد انہیں کی ذات ہے سب کا سہاراانہیں کے دَر سے ہے سب کا گزارا انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیںانہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں انہی۔۔۔
مزید
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرانہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیراتارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا فیض ہے یا شہِ تسنیم نرالا تیراآپ پیاسوں کے تجسّس میں ہے دریا تیرا اَغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرااَصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیںخسروا! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمانصاحبِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیبیعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیںکون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاساخود بجھا جائے کلیجا مِرا چھینٹا تیرا چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلافتیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیرابسچے سورج وہ دل۔۔۔
مزید
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہماراخاکی تو وہ آدم جَدِ اعلیٰ ہے ہمارا اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میںیہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیّدِ عالماُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا خم ہوگئی پشتِ فلک اِس طعنِ زمیں سےسُن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا اُس نے لقبِ ’’خاک‘‘ شہنشاہ سے پایاجو حیدرِ کرّار کہ مولا ہے ہمارا اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھےاِس خاک میں مدفوں شہِ بطحا ہے ہمارا ہے خاک سے تعمیرِ مزارِ شہِ کونینمعمور اِسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائیآباد رؔضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا حدائقِ بخشش ۔۔۔
مزید
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کانظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا یہی ہے اصلِ عالم مادّہ ایجادِ خلقت کایہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کاخدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا گنہ مغفور، دل روشن، خنک آنکھیں، جگر ٹھنڈاتَعَالَی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا نہ رکھی گُل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقیچٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا بڑھا یہ سلسلہ رحمت کا دَورِ زلفِ والا میںتسلسل کالے کوسوں رہ گیا عصیاں کی ظلمت کا صفِ ماتم اٹھے، خالی ہو زنداں، ٹوٹیں زنجیریںگنہگارو! چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنّت کا سکھایا ہے یہ کس گستاخ نے آئینہ کو یا ربنظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حیرت کا اِدھر اُمّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پرنرالا طَور ہوگا گردشِ چشمِ شفاعت کا بڑھیں اِس درجہ موجیں کثرتِ افضالِ والا کیکنارہ مل گیا اس نہر ۔۔۔
مزید
لطف اُن کا عام ہو ہی جائے گاشاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا جان دے دو وعدۂ دیدار پرنقد اپنا دام ہو ہی جائے گا شاد ہے فردوس یعنی ایک دنقسمتِ خدّام ہو ہی جائے گا یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاںنفس تو تو رام ہو ہی جائے گا بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیںمٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کردل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا ایک دن آواز بدلیں گے یہ سازچہچہا کہرام ہو ہی جائے گا سائلو! دامن سخی کا تھام لوکچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو!ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا مفلسو! اُن کی گلی میں جا پڑوباغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا گر یوں ہی رحمت کی تاویلیں رہیںمدح ہر الزام ہو ہی جائے گا بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دوشیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوںجیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا مِٹ کہ گر یوں ہی رہا قرضِ حیاتجان کا نیلام ہو ہی جائے گا عاقلو! ا۔۔۔
مزید
لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شد پیدا جاناجگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سَرا جانا اَلْبَحْرُ عَلَا وَالْمَوْجُ طَغٰے من بے کس و طوفاں ہوشربامنجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا یَا شَمْسُ نَظَرْتِ اِلٰی لَیْلِیْ چو بطیبہ رسی عرضے بکنیتوری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مِری شب نے نہ دن ہونا جانا لَکَ بَدْرٌ فِی الْوَجْہِ الْاَجْمَلْ خط ہالۂ مہ زلف ابرِ اجلتورے چندن چندر پرو کنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا اَنَا فِیْ عَطَشٍ وَّسَخَاکَ اَتَمّ اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرمبرسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا یَا قَافِلَتِیْ زِیْدِیْٓ اَجَلَکْ رحمے بر حسرتِ تشنہ لبکمورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا وَاھًا لِّسُوَیْعَاتٍ ذَھَبَتْ آں عہدِ حضورِ بارگہتجب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینے کا جانا اَلْقَلْبُ شَحٍ وَّالْھَمُّ شُجُوْں۔۔۔
مزید
نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھاحضورِ خاکِ مدینہ خمیدہ ہونا تھا اگر گُلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھاکنارِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا حضور اُن کے خلافِ ادب تھی بے تابیمِری اُمید تجھے آرمیدہ ہونا تھا نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھنہ اس قدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیںدِلِ حزیں تجھے اشکِ چکیدہ ہونا تھا پناہِ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتانہ صبرِِ دل کو غزالِ رمیدہ ہونا تھا یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیںعبث نہ اَوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کوسلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّم تھا وعدۂ ازلینہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہونا تھا نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طبیہ سے لاتیکہ صبحِ گُل کو گریباں دریدہ ہونا تھا ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گُل سےرگِ بہار کو نشتر رسیدہ ہونا تھا بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ن۔۔۔
مزید
شورِ مہِ نَو سن کر تجھ تک میں دَواں آیاساقی میں تِرے صدقے مے دے رمضاں آیا اِس گُل کے سوا ہر پھول با گوشِ گراں آیادیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا جب بامِ تجلّی پر وہ نیّرِ جاں آیاسر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیااب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فنا ہوں گےدیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا سر اور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نورظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہےسکتے میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسیلو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والوکیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا لے طوقِ الم سے اب آزاد ہو اے قمریچٹھی لیے بخشش کی وہ سَروِ رواں آیا نامے سے رؔضا کے اب مٹ جاؤ برے کامودیکھو مِرے پَلّے پر وہ ا۔۔۔
مزید