ہم نے تقصیر کی عادت کر لیآپ اپنے پہ قیامت کر لی میں چلا ہی تھا مجھے روک لیامرے اﷲ نے رحمت کر لی ذکر شہ سن کے ہوئے بزم میں محوہم نے جلوت میں بھی خلوت کر لی نارِ دوزخ سے بچایا مجھ کومرے پیارے بڑی رحمت کر لی بال بیکا نہ ہوا پھر اُس کاآپ نے جس کی حمایت کر لی رکھ دیا سر قدمِ جاناں پراپنے بچنے کی یہ صورت کر لی نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپجو کی روٹی پہ قناعت کر لی اُس سے فردوس کی صورت پوچھوجس نے طیبہ کی زیارت کر لی شانِ رحمت کے تصدق جاؤںمجھ سے عاصی کی حمایت کر لی فاقہ مستوں کو شکم سیر کیاآپ فاقہ پہ قناعت کر لی اے حسنؔ کام کا کچھ کام کیایا یوہیں ختم پہ رُخصت کر لی ذوقِ نعت۔۔۔
مزید
کیا خداداد آپ کی اِمداد ہےاک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے مصطفےٰ تو برسرِ اِمداد ہےعفو تو کہہ کیا ترا اِرشاد ہے بن پڑی ہے نفس کافر کیش کیکھیل بگڑا لو خبر فریاد ہے اس قدر ہم اُن کو بھولے ہائے ہائےہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے نفسِ امارہ کے ہاتھوں اے حضورداد ہے بیداد ہے فریاد ہے پھر چلی بادِ مخالف لو خبرناؤ پھر چکرا گئی فریاد ہے کھیل بگڑا ناؤ ٹوٹی میں چلااے مرے والی بچا فریاد ہے رات اندھیری میں اکیلا یہ گھٹااے قمر ہو جلوہ گر فریاد ہے عہد جو اُن سے کیا روزِ اَلستکیوں دلِ غافل تجھے کچھ یاد ہے میں ہوں میں ہوں اپنی اُمت کے لیےکیا ہی پیارا پیارا یہ اِرشاد ہے وہ شفاعت کو چلے ہیں پیشِ حقعاصیو تم کو مبارک باد ہے کون سے دل میں نہیں یادِ حبیبقلبِ مومن مصطفےٰ آباد ہے جس کو اُس دَر کی غلامی مل گئیوہ غمِ کونین سے آزاد ہے جن کے ہم بندے وہی ٹھہرے شفیعپھر دلِ بیتاب کیوں ناشاد ہے اُن کے دَر پر گر ۔۔۔
مزید
آپ کے دَر کی عجب توقیر ہےجو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے کام جو اُن سے ہوا پورا ہوااُن کی جو تدبیر ہے تقدیر ہے جس سے باتیں کیں اُنھیں کا ہو گیاواہ کیا تقریرِ پُر تاثیر ہے جو لگائے آنکھ میں محبوب ہوخاکِ طیبہ سرمۂ تسخیر ہے صدرِ اقدس ہے خزینہ راز کاسینہ کی تحریر میں تحریر ہے ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع نورِ شاہآفتابِ حُسن عالم گیر ہے لطف کی بارش ہے سب شاداب ہیںاَبرِ جودِ شاہِ عالم گیر ہے مجرمو اُن کے قدموں پر لوٹ جاؤبس رِہائی کی یہی تدبیر ہے یا نبی مشکل کشائی کیجیےبندۂ در بے دل و دل گیر ہے وہ سراپا لطف ہیں شانِ خداوہ سراپا نور کی تصویر ہے کان ہیں کانِ کرم جانِ کرمآنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے جانے والے چل دیئے ہم رہ گئےاپنی اپنی اے حسنؔ تقدیر ہے ذوقِ نعت۔۔۔
مزید
نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والےدرِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے جو بیمار غم لے رہا ہو سنبھالےوہ چاہے تو دَم بھر میں اس کو سنبھالے نہ کر اس طرح اے دلِ زار نالےوہ ہیں سب کی فریاد کے سننے والے کوئی دم میں اب ڈوبتا ہے سفینہخدارا خبر میری اے ناخدا لے سفر کر خیالِ رُخِ شہ میں اے جاںمسافر نکل جا اُجالے اُجالے تہی دست و سوداے بازارِ محشرمری لاج رکھ لے مرے تاج والے زہے شوکتِ آستانِ معلّٰییہاں سر جھکاتے ہیں سب تاج والے سوا تیرے اے ناخداے غریباںوہ ہے کون جو ڈوبتوں کو نکالے یہی عرض کرتے ہیں شیرانِ عالمکہ تو اپنے کتوں کا کتا بنا لے جسے اپنی مشکل ہو آسان کرنیفقیرانِ طیبہ سے آ کر دعا لے خدا کا کرم دستگیری کو آئےترا نام لے لیں اگر گرنے والے دَرِ شہ پر اے دل مرادیں ملیں گییہاں بیٹھ کر ہاتھ سب سے اُٹھا لے گھرا ہوں میں عصیاں کی تاریکیوں میںخبر میری اے میرے بدرالدجیٰ لے فقیروں کو ملتا ہے بے مان۔۔۔
مزید
نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہےکہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے لیا نہ ہو جس نے اُن کا صدقہ ملا نہ ہو جس کو اُن کا باڑانہ کوئی ایسا بشر ہے باقی نہ کوئی ایسا ملک رہا ہے کیا ہے حق نے کریم تم کو اِدھر بھی للہ نگاہ کر لوکہ دیر سے بینوا تمہارا تمہارے ہاتھوں کو تک رہا ہے ہے کس کے گیسوے مشک بو کی شمیم عنبر فشانیوں پرکہ جاے نغمہ صفیر بلبل سے مشکِ اَذفر ٹپک رہا ہے یہ کس کے رُوے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشنیہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے حسنؔ عجب کیا جو اُن کے رنگِ ملیح کی تہ ہے پیرہن پرکہ َرنگ پُر نور مہر گردوں کئی فلک سے چمک رہا ہے ذوقِ نعت۔۔۔
مزید
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہےلبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہےتری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہےتری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہےدَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہےمشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کاتمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوۂ عارضضیاے طالعِ بدر اُن کا اَبروے ہلالی ہے وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپناکہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلاؤں کواِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیںمژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے فقیرو بے نواؤ اپنی اپ۔۔۔
مزید
کرے چارہ سازی زیارت کسی کیبھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی چمک کر یہ کہتی ہے طلعت کسی کیکہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کینہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کیہمیں کیا خدا کو ہے اُلفت کسی کی ابھی پار ہوں ڈوبنے والے بیڑےسہارا لگا دے جو رحمت کسی کی کسی کو کسی سے ہوئی ہے نہ ہو گیخدا کو ہے جتنی محبت کسی کی دمِ حشر عاصی مزے لے رہے ہیںشفاعت کسی کی ہے رحمت کسی کی رہے دل کسی کی محبت میں ہر دمرہے دل میں ہر دم محبت کسی کی ترا قبضہ کونین و مافیہا سب پرہوئی ہے نہ ہو یوں حکومت کسی کی خدا کا دیا ہے ترے پاس سب کچھترے ہوتے کیا ہم کو حاجت کسی کی زمانہ کی دولت نہیں پاس پھر بھیزمانہ میں بٹتی ہے دولت کسی کی نہ پہنچیں کبھی عقلِ کل کے فرشتےخدا جانتا ہے حقیقت کسی کی ہمارا بھروسہ ہمارا سہاراشفاعت کسی کی حمایت کسی کی قمر اِک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھازمانے پہ ۔۔۔
مزید
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کےصدقے جاؤں میں تری انجمن آرائی کے بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کےکب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے ہو غبارِ درِ محبوب کہ گردِ رہِ دوستجزو اعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے خاک ہو جائے اگر تیری تمناؤں میںکیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کے چمکتے خورشیدلامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بندقابلِ دید ہیں انداز تمنائی کے لبِ جاں بخش کی کیا بات ہے سبحان اﷲتم نے زندہ کیے اِعجاز مسیحائی کے اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کواے زہے بخت مری ذلّت و رُسوائی کے دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہےدیکھنے والے ترے جلوۂ زیبائی کے جب غبارِ رہِ محبوب نے عزت بخشیآئینے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوںصدقے جاؤں ترے بازو کی توانائی کے عالم الغیب نے ہر غیب سے آگاہ کیاصدقے اس شان۔۔۔
مزید
پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کےوہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے دُھوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کیخطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے حُسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوےگل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے ذرّۂ دشتِ مدینہ کی ضیا مہر کرےاچھی ساعت سے پھریں دن شبِ تنہائی کے پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نےپائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے لاشِ احباب اِسی دَر پر پڑی رہنے دیںکچھ تو ارمان نکل جائیں جبیں سائی کے جلو گر ہو جو کبھی چشمِ تمنائی میںپردے آنکھوں کے ہوں پردے تری زیبائی کے خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہصدقے اے رُوحِ رواں تیری مسیحائی کے کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریںکہ دکھاتے ہیں کمال انجمن آرائی کے زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینتزینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے نام آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلندبالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ م۔۔۔
مزید
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئےمرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئےتو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے مرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہیمری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دےوہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئے سببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیںنہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے کھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کےمرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھاوہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئے مجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کاکہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئے جو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیںتمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئے جو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کومرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے یہ کریم ہیں وہ۔۔۔
مزید
تم ہو حسرت نکالنے والےنامرادوں کے پالنے والے میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کاآپ ہیں جب سنبھالنے والے تم سے منہ مانگی آس ملتی ہےاور ہوتے ہیں ٹالنے والے لبِ جاں بخش سے جِلا دل کوجان مردے میں ڈالنے والے دستِ اقدس بجھا دے پیاس مریمیرے چشمے اُبالنے والے ہیں ترے آستاں کے خاک نشیںتخت پر خاک ڈالنے والے روزِ محشر بنا دے بات مریڈھلی بگڑی سنبھالنے والے بھیک دے بھیک اپنے منگتا کواے غریبوں کے پالنے والے ختم کر دی ہے اُن پہ موزونیواہ سانچے میں ڈھالنے والے اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرورکہ وہ جب بھی تھے پالنے والے پار کر ناؤ ہم غریبوں کیڈوبتوں کو نکالنے والے خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جااَرے او نام اچھالنے والے کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوںوہ سبھی کے ہیں پالنے والے زنگ سے پاک صاف کر دل کواندھے شیشے اُجالنے والے خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہےدل سے کانٹا نکالنے والے ذوقِ نعت۔۔۔
مزید
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیریفرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئےہمیں معلوم ہے دولت تری عادت تیری تو ہی ہے مُلکِ خدا مِلک خدا کا مالکراج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری تیرے انداز یہ کہتے ہیں کہ خالق کو ترےسب حسینوں میں پسند آئی ہے صورت تیری اُس نے حق دیکھ لیا جس نے اِدھر دیکھ لیاکہہ رہی ہے یہ چمکتی ہوئی طلعت تیری بزم محشر کا نہ کیوں جائے بلاوا سب کوکہ زمانے کو دکھانی ہے وجاہت تیری عالم رُوح پہ ہے عالم اجسام کو نازچوکھٹے میں ہے عناصر کے جو صورت تیری جن کے سر میں ہے ہوا دشتِ نبی کی رضواںاُن کے قدموں سے لگی پھرتی ہے جنت تیری تو وہ محبوب ہے اے راحتِ جاں دل کیسےہیزمِ خشک کو تڑپا گئی فرقت تیری مہ و خورشید سے دن رات ضیا پاتے ہیںمہ و خورشید کو چمکاتی ہے طلعت تیری گٹھریاں بندھ گئی پر ہاتھ ترا بند نہیںبھر گئے دل نہ بھری دینے سے نیت تیری موت آ جائے مگر آ۔۔۔
مزید