آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کی بھانجی کے بیٹے تھے، اور قرآن کریم کے حافظ تھے، منقول ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء نے ایک روز آپ کو اپنی علالت کے زمانے میں بلاکر خلافت دی اور نصیحت فرمائی کہ تمہیں جو کچھ ملے اس پر صابر و شاکر رہنا، اور اگر کچھ نہ ملے تو پریشان نہ ہونا کیونکہ اللہ تعالیٰ (عنایت فرمانے والا ہے وہ کچھ نہ کچھ ضرور) دیدے گا، کسی کی بدخواہی نہ کرنا، جور و ظلم کا بدلہ بخشش و کرم سے دینا، جاگیریں اور وظائف قبول نہ کرنا کیونکہ درویش وظیفہ خوار نہیں ہوتے، اگر تم ان تمام باتوں پر مضبوطی سے عمل کرو گے تو مخلوق تمہارے دروازے پر آیا کریں گے، آپ ابھی نوجوان ہی تھے کہ خواجہ نظام کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے اور رحمت خداوندی کی آغوش میں پنہاں ہوگئے۔ اخبار الاخیار خواجہ تقی الملۃ والدین نوح ہیں جو علم کے ساتھ موصوف اور تحمل و وقار کی طرف منسوب تھے۔ فرشتوں کی سی صفات اپنے میں رکھ۔۔۔
مزید
حرمین محترمین کے زائر اور مشغول بحق تھے۔ سلطان المشائخ کے سابق مریدوں میں اعلی درجہ کے مرید اور آپ کے یاروں میں معتبر شخص تھے فضائل ظاہری و باطنی اس قدر رکھتے تھے اور یاد حق میں اس درجہ مشغول تھے کہ شیخ نصیر الدین محمود جیسے بزرگ شخص نے آپ کو مرید کرنے کی اجازت دی تھی اور یہ ظاہر بات ہے کہ اس شخص کے دینی فضائل کس حد پر ہوسکتے ہیں جسے شیخ کے انتقال کے بعد اس کا ایک اعلی درجہ کا خلیفہ ایسے اہم اور بھاری کام کی اجازت دے جو حقیقت میں نبوت کی نیابت ہے باوجود یکہ اس کام میں اس قدر دشواریاں اور باریکیاں ہیں جو بیان میں نہیں آسکتیں۔۔۔۔
مزید
حضرت میاں قاضی خان ظفر آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ شیخ حسن طاہر کے مرید بھی تھے اور خلیفہ بھی بڑے زاہد۔ عابد اور صاحب استقامت و کرامت بزرگ تھے فرمایا کرتے تھے میں نے تیس سال جہاد کیا اور اس نفس آمارہ سے لڑتا رہا مجھے محسوس ہوا ہے کہ یہ نفس پلید انسان کو کن کن داؤ و پیچ سے مغلوب کرتا رہتا ہے۔ نصیر الدین ہمایوں بادشاہ نے کئی بار کوشش کی کہ آپ نذرانہ قبول فرمالیں مگر ہر بار انکار فرما دیا کرتے تھے ایک بادشاہی مرتبت کے بادشاہ نے کہلا بھیجا آپ جو شہریا جاگیر اپنے نام پر لکھ دیں وہ آپ کے لیے ہوگی مگر آپ نے فرمایا مجھے یہ چیزیں درکار نہیں ہیں ہم نے اپنے پیر و مرشد سے وعدہ کیا ہے کہ جو کچھ مانگیں گے اپنے خدا سے مانگیں گے ہمایوں نے کہا اچھا یہ چیزیں اپنے بیٹوں کے لیے لے لیں آپ نے فرمایا وہ بالغ ہیں انہیں اختیار ہے اپنے لیے کیا چیز حاصل کریں آخر کار یہ فرمان آپ کے بڑے بیٹے عبداللہ کی خدمت میں ۔۔۔
مزید
حضرت ابو محمد عبداللہ مرتعش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ عبداللہ بن محمد نیشاپوری کے نام سے مشہور تھے بغدادمیں قیام رہا، ابوحفص حدّاد اور سید الطائفہ حضرت جیند بغدادی رحمۃ اللہ علیہما کے خلفاء میں سے تھے، آپ نے سیاحت میں دنیائے تہذیب کو چھان مارا تھا۔ جب حضرت مرتعش اپنے پیرو مرشد کے حکم سے سیاحت پر نکلے تو ہر سال ایک ہزار فرسنگ سفر کرتے، تقریباً ایک ہزار قصبوں میں گھومتے مگر کسی قصبے میں دس روز سے زیادہ قیام نہ کرتے، آپ نے فرمایا: میں نے زندگی میں تیس حج پا پیادہ کیے ہیں، میں نے اس توکل کی زندگی پر غور سے نظر ڈالی تو محسوس کیا کہ یہ بھی نفس کی خواہش کی تکمیل تھی لوگوں نے پوچھا یہ بات کس طرح معلوم ہوئی، آپ نے فرمایا: ایک دن مجھے میرے والدہ نے کہا کہ کنویں سے ایک گھڑا پانی لے آؤ، مجھے والدہ کا یہ حکم گراں گزرا، اس سے خیال آیا کہ یہ تمام حج بھی تو اپنے نفس کی خواہش پر کیے ہیں۔ ایک درویش نے یہ ۔۔۔
مزید
حضرت علامہ وکیل احمد سکندرپوری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شاہ محمد عبدالعلیم آسی رشیدی قدس سرہٗ کے برادر عم زاد، وکیل احمد نام نامی۔ ۹؍ذی الحجہ ۱۲۵۸ھ میں اپنے گاؤں سکندر پور ضلع بلیا میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وطن میں پائی، حضرت مولانا عبد الحلیم فرنگی کا شہرہ سُن کر جونپور پہونچے، نور الاونار کا مشہور حاشیہ ‘‘قمر الاقمار’’ مولانائے فرنگی محلی نے آپ ہی کے لیے لکھا، ۱۲۷۶ھ میں درسیات تمام کیں، لکھنؤ میں حکیم نور کریم لکھنوی سے طب پڑھی، کچھ عرصہ مطب بھی کیا، ۱۲۸۳ھ میں حیدر آباد وکن گئے، سرکار آصفیہ کے صوبہ شرقی کے نائب مقرر ہوئے۔ مولانا عبد الحئی لکھنوی (آپ کے اُستاذ زادہ) اور نواب صدیق حسن قنوجی بھوپالی کے درمیان جب مشہور تحریری مناظرہ دربارۂ تقلید و مفتیان ائمہ ہوا تو آپاُستاذ زادہ کے دوش بدوش تھے، اور نواب کے رسالۂ نظم کا جواب نظم میں بعنوان دیوان حنفی اور نثر ۔۔۔
مزید
حضرت فاضل کبیر محمد حسن سنبھلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نام ونسب: اسمِ گرامی : محمد حسن والد کا نام شیخ ظہور حسن بن شمس علی تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا عبد السلام صحابی رسول ﷺ ورضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے۔ تاریخِ ولادت:فاضلِ کبیر 1264ھ میں سنبھلی، ضلع مراد آباد، ہند میں پیداہوئے۔ تحصیلِ علم:فاضلِ کبیر نے پہلے حفظ قرآن پاک کیا، پھر مفتی عبد السلام سنبھلی، مولانا عبدالکریم خاں دہلوی، مولانا سدید الدین خاں دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر بد ایونی سے تحصیل وتکمیل علوم کی، کچھ دنوں بدایوں میں مولوی سید یونس علی بد ایونی کی تعلیم پر مامور بیعت وخلافت: فاضلِ کبیر رحمۃ اللہ علیہ شاہ ولدار علی مذاق بد ایونی خلیفۂ حضرت اچھے میاں مارہروی سے مرید تھے۔ اور اُنہیں سے سلاسل طریقت کی اجازت بھی پائی۔ سیرت وخصائص: فاضلِ کبیر محمد حسن سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے مشہور صا۔۔۔
مزید
کانِ صفا معدنِ وفا ظاہر و باطن محبت و عشق سے آراستہ۔ عشق و محبت کے ذوق میں دنیا و عقبیٰ کی لذت سے دل برخاستہ موافقت دوست میں عزت باختہ شیخ قطب الدین منور ہیں (خدا تعالیٰ ان کی قبر کو انوار قدس سے منور و روشن کرے) شیخ قطب الدین منور نور اللہ مرقدہ کے اوصاف اور کثرتِ بُکا اور درونی ذوق و شوق آپ علم و عقل وفا و عشق ورع و بکا کے ساتھ موصوف و مشہور اور اسقاط تکلف کے ساتھ مخصوص تھے۔ غوغائے خلق کا مطلقاً خیال نہ رکھتے تھے اور اپنے آبا و اجداد کے اس گوشہ میں جہاں انہوں نے اپنی عزیز عمریں خدا کی محبت و عبادت میں صرف کی تھیں انتہائے عمر تک نہایت خوشی کے ساتھ بسر کردی اور کسی وقت کسی طرح دنیا اور اہل دنیا کی طرف میل نہیں کیا۔ جو کچھ غیب سے تھوڑا بہت پہنچتا تھا اسی پر قناعت کرتے کسی کے دینے لینے کی کبھی کچھ پروانہ کرتے کسی بزرگ نے کیا ہی اچھا کہا ہے۔ شیر نر بوسد بحرمت مرد قانع راقدم پیر س۔۔۔
مزید
حضرت مولانا سید اختصاص حسین پھپھوندوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نام ونسب: اسم گرامی:مولانا سید اختصاص حسین۔علاقہ "پھپھوند"کی نسبت سےپھپھوندوی کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: مولانا سید اختصاص حسین بن مولانا سید شاہ اختصاص حسین بن سید شاہ انوار حسین علیم الرحمہ۔آپ کا تعلق خاندانِ ساداتِ کےعظیم خانوادے سےہے۔شاہ صاحب کا پورا خاندان علم وفضل ،تقویٰ وطہارت میں مشہور زمانہ تھا۔بالخصوص آپ کے والد گرامی مولانا سید شاہ انوار حسین صاحب سہسوانی علیہ الرحمہ جامع علوم نقلیہ وعقلیہ ،جامع شریعت وطریقت اور مرجع الخلائق تھے۔عالم ربانی حضرت علامہ مولانا خواجہ عبدالصمد سہسوانی علیہ الرحمہ مولانا سید اختصاص حسین علیہ الرحمہ کےنانا محترم ہیں۔ تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ماہ جمادی الاول/1318ھ کوپھپھوند ضلع اٹاوہ میں ہوئی۔ تحصیل علم:ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی،قرآن مجید اپنے ۔۔۔
مزید
حضرت شیخ جمال الدین احمد جورقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ شیخ علی لالہ کے مرید تھے آپ کے پیر و مرشد فرمایا کرتے تھے جس شخص نے جمال الدین احمد کی صحبت پائی اسے حضرت جنید بغدادی اور شبلی رحمۃ اللہ علیہما کی صحبت میّسر آگئی۔ایک دن آپ کا ایک مرید آپ کے حجرے میں مراقبے میں مشغول تھا آپ کے آنے کی آواز سُنی تو دل میں کہنے لگا شاید میرے لیے کوئی کھانا لے کر آیا ہے حضرت شیخ جمال الدین احمد نے اس کے دل کی بات معلوم کرلی اپنا جوتا اتار کر کر اس کے سر پر مارنا شروع کردیا اور فرمایا مراقبہ اسے زیب دیتا ہے جس نے ایک ہفتہ تک کھانا نہ کھایا ہو اسے لوگوں کے جوتوں کی آواز سن کر یہ خیال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کو آنے والا میرے لیے کھانا لا رہا ہے۔حضرت شیخ نے ۶۶۹ھ میں وفات پائی۔ حسن دَوراں جمال دین احمدسالِ ترحیل آں جمال جہاںذات او بود ماہتاب جمالکن رقم قطب آفتاب جمال۶۶۹ھ(خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید