اتوار , 01 رجب 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Sunday, 21 December,2025

یعقوب بن سید علی

            یعقوب بن سید علی: اپنے زمانہ کے فاضل اجل اور فائق اقران تھے۔ مدت تک بروسا وارنہ و قسطنطیہ میں مدرس رہے۔کتاب شرعۃ الاسلام کی ایک نہایت عمدہ شرح مفاتیح الجنان نام تصنیف کی جس میں فوائد غریبہ اور لطائف عجیبہ اور مسائل فقہیہ اور دلائل حدیثیہ کو بڑی خوبی سے بیان کیا۔علاوہ اس کے کتاب گلستان کی شرح بھی عربی میں تصنیف کی اور ۹۳۱؁ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

میرم چلپی

              محمود بن محمد بن قاضی زادہ الشہیر بہ میرم چلپی: خواجہ زادہ اور سنان پاشا سے علوم و فنون حاصل کر کے علامہ زمانہ ہوئے۔پہلے مدرسہ کلیولی پھر اور نہ پھر  بروسا کے مدرس بنے،اخیر کو سلطان با یزید خاں نے اپنے لیے آپ کو معلم بنالیا اور آپ سے علوم ریاضیہ حاصل کیے۔آپ نے حج کیا اور اپنے شہر میں آکر ۹۳۱؁ھ میں وفات پائی۔آپ کی تصنیفات سے رسالہ فی معرفت سمۃ القبلہ اور شرح زیچ الغ بیگ کی فارسی میں اور اپنے نانا قوشجی کے رسالہ فتحیہ کی شرح جو ہئیبت میں ہے،وغیرہ رسائل یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

محمد بن محمود ترجمانی

محمد بن محمود ترجمانی مکی خوار زمی: امام کامل مرجع انام تھے،علاء الدین لقب تھا،ترجمان جسکی طرف آپ منسوب ہیں،یا تو آپ کے بعض اجداد کا نام ہے یا آپ کا لقب تھا،شہر جر جانیہ خوارزم میں ۶۴۵؁ھ کو فوت ہوئے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

عابد چلپی

                عبد العزیز بن سید یوسف حسینی رومی الشہیر بہ عابد چلپی: جامع منقول و معقول تھے،علم محمد سامسونی مدرس ملا خسرو پھر اپنے بھائی چلپی محشی شرح وقایہ سے جبکہ وہ آٹھ مدارس میں سے ایک کے مدرس تھے پڑھا،اخیر کو علی بن یوسف فناری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے فضیلت و کمالیت کا درجہ حاصل کیا اور کلیولی میں مدرس مقرر ہوئے  پھر کفہ کے قاضی بنے یہاں تک کہ ۹۳۱؁ھ میں وفات پائی۔ ’’عاقل خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔  ۔۔۔

مزید

اسماعیل بن بالی قرامانی

                اسمٰعیل بن بالی قرامانی: کمال الدین لقب تھا مگر قرہ کمال کے نام سے معروف تھے،علم  احمد خیالی اور مولیٰ خسرو محمد بن فراموز وغیرہ سے پڑھا یہاں تک کہ بڑے عالم فاضل ہوئے اور شہر اورنہ وغیرہ کے مدرس مقرر کیے گئے،تفسیر کشاف اور بیضاوی اور شرح وقایہ اور شرح مواقف اور خیالی کے حاشیہ شرح عقائد وغیرہ کے حواشی تصنیف کیے شرح مواقف کے حواشی آپ نے ۹۲۹؁ھ میں جبکہ آپ آٹھ مدارس میں سے ایک کے مدرس تھے تصنیف کیے چنانچہ تاریخ ان کی تکملات الادب ہے۔وفات آپ کی بعد ۹۳۰؁ھ کے ہوئی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

میر جمال الدین صاحبِ روضۃ الاحباب

                میر جمال الدین عطاء اللہ صاحب روضۃ الاحباب: آپ اعاظم اولاد امجاد خیر الانام سے جملہ اقسام علوم دینیہ اور اصناف فنون یقینیہ خصوصاً علم حدیث و سیر میں بے عدیل عدیم التمثیل،کشاف اسراف معالم تنزیل اور حلال معضلات موافق تاویل تھے۔صاحبِ روضۃ الصفاء نے آپ کی توصیف میں مندرجہ ذیل اشعار لکھے ہیں  ؎ زبانش مطہر اسرار تحقیق ضمیر ش مطہر انور تدقیق جمال دیں مزین زاہتماش علوم شرع واضح ازکلامش زروضیح بیانش گشتہ روشن براہلِ علم ہر مشکل زہرفن           آپ چند سال مدرسہ سلطانیہ کے اس گنبد میں جہاں اب خاقان منصور کا مقبرہ ہے،درس و افادہ میں مشغول رہ کر ہفتہ میں ایک مرتبہ مسجد دار السلطنت ہرات میں وعظ و نصائح سے خلق اللہ کو فیوض ظاہری و باطنی پہنچاتے رہے۔آپ کی تصنیفات سے کتاب روضہ الاحب۔۔۔

مزید

غریب شاکر آزاد

حضرت مولانا غریب شاکر آزاد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔۔۔

مزید

محمد شاہ عالی  

              محمد شاہ بن[1]عالی بن یوسف بن محمد بن حمزہ فناری: محی الدین لقب تھا۔ عالم متجر،فقیہ علم اپنے باپ سے ھاسل کیا،جب وہ فوت ہوئے تو پھر خطیب زادہ سے استفادہ کیا۔سلطان با یزید نے پہلے آپ کو مدرسہ بروسا کا مدرس مقرر کیا پھر قسطنطیہ کے مدرس ہوئے پھر سلطان سلیم خاں نے آپ کو پہلے قسطنطیہ کا قاضی مقرر کیا پھر قضاء عسکر اور قضاء اور نہ پر تبدیل ہوئے اور جب ولایت روم ایلی میں عسکر کی قضاء پر مامور تھے تو ۹۲۹؁ھ میں جوانی کی حالت میں وفات پائی۔’’فخر بزم‘‘ تاریخ وفات ہے۔   1۔ حبان علی ’’جواہر المفیہ ‘‘ (مرتب) (حدائق الحنفیہ)   ۔۔۔

مزید

پاشا چلپی  

              مولیٰ غیاث الدین رومی الشہیر بہ پاشا چلپی: جامع معقول و منقول، حاوی فروع واصول تھے علوم احمد بن موسیٰ خیالی اور خواجہ زادہ سے پڑھے،قسطنطیہ میں احمد بن اسمٰعیل کورانی کے مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے پھر اورنہ میں مدرسۂ حلبیہ اور بروسا میں مدرسۂ سلطانیہ کے معلم بنے اور ہر ایک فن میں بے حدوبے حساب رسالے تصنیف کیے اور ۹۲۸؁ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

قاضی اختیار الدین  

              قاضی اختیار الدین حسین بن غیاث الدین تربتی: عالم فاضل،فقیہ کامل تھے،جوانی میں اپنے وطن سے ہرات میں آکر تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوئے اور تیزی طبع سے تھوڑے عرصہ میں بڑی ترقی کر کے فتاویٰ اور قبالہ شرعی اور حکم ناموں کے لکھنے میں دستگاہ کامل حاصل کرلی اور فن شعرو انشاء معما میں بھی ماہر ہوئے،اخیر کو بسبب کمال فراست و کیاست اور دیانت و امانت کے ہرات کے جملہ فضلاء سے سبقت لے گئے اور خاقان منصور کے زمانہ میں منصب قضاء پر سرافراز ہوکر معتمد و معتبر حضرت خاقانی ہوئے ار بروقت استیلاء ابو الفتح محمد خاں شیبانی اور مقتول ہونے بادشاہ کے دل برداشتہ ہوکر اپنے اصلی وطن میں چلے گئے اور وہاں جاکر کاروبار زراعت میں مشغول ہوئے اور قصبۂ تربت میں اوائل ۹۲۸؁ھ میں بعارضہ سوء القنیہ وفات پائی اور مقبرہ آباء واجداد میں مدفون ہوئے۔آپ کی تصنیفات ۔۔۔

مزید