عطاء
محمد بندیالوی، ملک المدرسین، امام المناطقہ، علامہ مولانا
نام: عطاء محمد
کنیت: ابوالفداء
اَلقاب: امام المناطقہ، ملک المدرسین
نسب: علوی
سلسلۂ
نسب:
علامہ عطاء محمد
بندیالوی بن اللہ بخش بن غلام محمدبن محمد چراغ بن خدابخش بن بصارت بن دلیل
بن خدایاراِلٰی آخِرِہٖ۔
آپ کاسلسلۂ نسب حضرت محمد بن حنفیہ کے ذریعے حضرت
علی المرتضیٰ تک پہنچتا ہے۔
برادری: اَعوان
سالِ
ولادت: 1334ھ / 1916ء
مقامِ
ولادت: ڈھوک دھمن، نزدقصبہ پدھراڑ،ضلع خوشاب ،پنجاب(پاکستان)
تحصیلِ علم:
امام المناطقہ ملک المدرسین
حضرت علامہ مولانا عطاء محمد بندیالوینے حفظِ قرآنِ مجید اور فارسی کی ابتدائی
کتب موضع و سنال ضلع جہلم میں حافظ الٰہی بخش اور قاضی محمد بشیر سے پڑھیں۔ 1932ء
میں آپ بندیال ضلع سرگودھا تشریف لے گئے۔ اُن دنوں بندیال میں فقیہ العصر
استاذالعلما حضرت علامہ یار محمد بندیالوی نے علوم و فنون کا فیض جاری کیا ہوا تھا، چنانچہ آپ نے بھی
اس فیض سے بہرور ہونا شروع کردیا اور فارسی کی بقیہ کتب، صرف و نحو کی تمام کتب، اُصولِ
فقہ سے حسامی اور منطق سے قطبی وغیرہ پڑھیں۔ اس کے بعد دو سال چھ ماہ کا عرصہ
جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں گزارا اور حضرت استاذالعلما مولانا مہر محمد
اچھروی سے معقول اور فنونِ عالیہ کی تمام کتب کا درس لیا۔ چھ ماہ ’’انہی‘‘ ضلع
گجرات میں رہے اور پھر پپلاں ضلع میانوالی میں مولانا غلام محمود(مصنّف تحفۂ
سلیمانی)سے تصریح، شرحِ چغمینی اور رسائلِ ربع مجیب وغیرہ کتب پڑھ کر علوم و فنون کی تکمیل کی۔ اسی
طرح آپ نے حضرت علامہ مولانا محب النبی چشتی گولڑوی ،مولانا امیرمحمد اور
حضرت علامہ ولی اللہ (’’انہی‘‘ ضلع
گجرات) سے بھی علمی استفادہ فرمایا۔
اَساتذۂ کرام:
· حافظ الٰہی بخش
· قاضی محمد بشیر
· فقیہ العصر استاذالعلما حضرت علامہ یار محمد بندیالوی
· استاذالعلما حضرت مولانا مہر محمد اچھروی
· مولانا غلام محمود (مصنّف تحفۂ سلیمانی)
· حضرت علامہ مولانا محب النبی چشتی گولڑوی
· حضرت مولانا امیرمحمد
· حضرت علامہ ولی اللہ
بیعت وخلافت:
آپ تاجدارِ گولڑہ ،محافظِ ختمِ نبوّت سیّدناپیرمہرِ
علی شاہ گولڑوی کے دستِ حق پرست پر
زمانۂِ طالبِ علمی میں بیعت ہوئے۔آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشینِ برحق حضرت شاہ محی الدین گولڑوی گیلانی المعروف بَہ قبلہ بابو جی کے دست ِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص:
ملک العلما، امام المناطقہ، بحرالعلوم، اُستاذالکل،
جامع المنقولِ والمعقول، صدرالمدرسین،خزینۂ علم وعرفاں، امام ِ علم وحکمت،سلسلۂ
خیرآبادیت کے وارثِ کامل، پروردۂ نگاہِ تاجدارِ گولڑہ، محسنِ اہلِ سنّت،
ملک المدرسین حضرت علامہ مولانا عطاءمحمد بندیالوی۔سادہ لباس میں ملبوس ایک درویش
صفت،سیر چشم،غیور اور خموش طبع عالمِ دین ،مروجہ علوم وفنون میں کامل
دستگاہ،معارفِ قرآن وسنّت کی جلوہ گاہ،علمِ مناظرہ میں یکتا، منطق وفلسفہ کا
امام، فقہ میں فقیہ العصر،فنِ حدیث میں وہ
بصیرت کہ اسلاف محدثین تحسین فرمائیں۔علمِ ہیئت میں وہ مہارت کہ ہیئت کی ہیئت سنور
جائے۔ آپ کی علمی وتدریسی خدمات میں اللہ تعالیٰ نے جوقبولیت رکھی تھی اس کے پیشِ
نظر کہا جاسکتا ہے کہ اسمِ بامسمّٰی عطائے محمد اور
تحفۃ المصطفیٰﷺفی دیارِ پاکستان تھے۔
شرفِ
ملّت حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’’تدریس میں کئی سال کا ملکہ اور تجربہ ہونے کے
باوجود آپ نے کبھی کوئی کتاب بغیر مطالعہ کیےنہیں پڑھائی۔اپنے تلامذہ کو بھی یہی
نصیحت فرماتے تھے۔عشقِ رسولﷺمیں آپ کا انگ انگ گندھاہواتھا۔آپ تمام عقلی ونقلی علوم کو عشقِ رسولﷺکےنمونہ میں دیکھتے تھے۔تدریس کایہ عالم تھا کہ یوں محسوس
ہوتاتھا مصنف خود پڑھارہے ہیں بلکہ وہ بھی آفریں کہیں۔‘‘(مقدمہ، قوّالی کی شرعی
حیثیت)
حضرت استاذالعلماء ملک
المدرسین
اس قحط الرجال کےزمانے میں یادگارِ اسلاف ،اور اہلِ سنّت وجماعت کے لیے
اللہ تعالیٰ کی نعمت تھے۔اس وقت اہلِ سنّت کے مدارس میں قابل مدرسین ومصنّفین میں سے اکثرآپ کے
تلامذہ یاتلامذہ کے تلامذہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی محنت اورخلوص سے محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری بہت خوش ہوتے تھے،اور آپ کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
آپ امام العلما والفضلا اور بحرالعلوم ایسی
علمی شخصیت ہونے کے باوجود نہایت ہی سادہ لباس تھے اور طلبہ وعوام سے بے تکلفی سے
گفتگو فرماتے تھے۔آپ کی طبیعت میں اس قدر سادگی تھی کہ دیکھنے والوں کو
محسوس تک نہ ہوتا تھا کہ یہ علم کاکوہِ ہمالیہ ہے یا عام انسان۔حق
گوئی وبےباکی آپ کاطُرّۂ امتیاز تھا۔تقویٰ وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔نماز اس قدر خشوع وخضوع سے ادافرماتے
کہ اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی۔آپ نے تحریکِ پاکستان،تحریکِ ختمِ نبوّت، اور تحریکِ
نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھرپور کرداراداکیا۔آپ جمعیت علمائے پاکستان کے نائب صدر اور
جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان کے صدر رہے، اس طرح اپنی سیاسی اورتنظیمی صلاحیتوں سے
اہلِ سنّت کونوازتے رہے۔آپ نے امّت
کی اہم موضوعات پر تحریر کی صورت میں بھی راہ نمائی فرمائی ۔
فطرت کے تقاضوں کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کُہستانی
وصال:
آپ کا وصال 4؍ ذیقعدہ 1419ھ مطابق
21؍ فروری1999ء بروز اتوار صبح نو بجے ہوا۔آپ کواپنے آبائی علاقے میں سپردِ خاک
کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پراپنی رحمتوں کانزول فرمائے۔(آمین)
مآخذومراجع:
· ذکر عطاء فی حیاتِ استاذالعلماء مولانا عطاء محمد بندیالوی
· تعارف علمائے اہلِسنّت۔


