امامِ
اعظم ابو حنیفہ، نعمان بن ثابت
نام
: نعمان۔
کنیت: ابو
حنیفہ۔
اَلقاب: امامِ اعظم،سراج الامّہ،کاشف الغمہ۔
نسب:
سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
حضرت
امام ِاعظم نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان بن ثابت بن قیس بن یزدگرد بن شہر یار
بن پرویز بن نوشیرواں عادل۔
(حدائق الحنفیہ، ص42؛ خزینۃ الاصفیاء، ص 90)
وجہِ
کنیتِ ’’ابوحنیفہ‘‘:
’’ابوحنیفہ‘‘ کامطلب ہے ’’صاحبِ ملّتِ حنفیہ‘‘،اور اِس
کامفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کےباطل سے اعراض کرکے دینِ حق کو اختیار کرنےوالا۔اس غرض
سےیہ کنیت اختیار کی، ورنہ ’’حنفیہ‘‘نام کی آپ کی کوئی صاحبزادی نہیں تھیں۔
خاندانی
پس منظر:
آپ کا خاندان عجم کےمعززشرفاء سے تعلق
رکھتا ہے۔
امام صاحب کے پوتے اسماعیل بن حماد فرماتے ہیں:
’’نحن من
ابناء فارس الاحرار۔‘‘ (تہذیب ،ج۱۰،ص ۴۰۱)
آپ کےدادانے اسلام قبول کیا جن کا اسلامی
نام نعمان رکھاگیا،انہوں نے کوفے میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ حضرت علی کے
عہدِخلافت میں اُن کے بیٹے ثابت پیداہوئے، جنہیں لے کر وہ بارگاہِ مرتضوی میں پہنچے تو حضرت مولیٰ
علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہٗ نے ثابت اور ان کی ذرّیت کے حق میں برکت کی دعا فرمائی:
’’ذھب ثابت الی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ وھو صغیر فدعا
لہ بالبرکۃ فیہ وفی ذریتہٖ‘‘
حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ کے پوتے اسماعیل
بن حماد فرماتے ہیں:
’’نحن نرجوان یکون اللہ تعالٰی قداستجاب ذٰلک لعلی فینا‘‘
ترجمہ:
’’ہمیں امید ہے کہ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کی دعا کو قبو ل
فرما یا۔‘‘
(وفیات الاعیان،ج۳،ص۲۰۱)
بِشارتِ
نبویﷺ:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم حضورﷺ
کی بارگاہ میں حاضر تھے، اس مجلس میں سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نے اس سورت کی
آیت: وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ- کی تلاوت فرمائی تو حاضرین میں سے کسی نے
پوچھا:
حضور ! یہ دوسرے کون ہیں جو ابھی تک ہم سے
نہیں ملے ؟
حضورِ اکرمﷺ نے جواب میں سکوت فرمایا۔ جب بار بار سوال کیا گیا تو حضرت سلمان
فارسی کے کندھے پردستِ اقدس رکھ کر فرمایا:
’’لوکان الایمان عند الثریالنہ رجال من ھؤ لاء۔‘‘
ترجمہ:
اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تو
اِس کی قوم کےکچھ لوگ ضروری اس کو حاصل کر لیں گے۔
(صحیح البخاری:4615؛صحیح مسلم:2546)
سنِ ولادت: 80 ہجری۔
مقامِ
ولادت: کوفہ،
عراق۔
تحصیلِ علم:
حضرت امامِ اعظم نے اس شہر میں آنکھ کھولی تھی،
جس کے ذرے ذرّے سے علم و عرفان کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ آپ ابتدائی تعلیم کے بعد
کاروبار میں بیس سال کی عمر تک مصروف رہے، لیکن قدر ت نے آپ سے فروغِ علم کا عظیم
کام لینا تھا۔ امام شعبی کی ہدایت پر علمِ دین کی طرف متوجہ ہوئے۔ابتداء میں ادب و انشاء اور
کلام کی تعلیم حاصل کی، کچھ دنوں بعد فقیہِ وقت امام حماد کے حلقۂ درس سے وابستہ
ہوکر فقہ، حدیث اور تفسیر کادرس لیا اور ذوقِ علم کی تسکین کے لیے مکہ، مدینہ اور
بصرہ کے متعدد سفر کیے، حرمین شریفین میں کافی دنوں تک قیام کیا جو علماء و مشایخ
کے عظیم مرکز تھے اور ایامِ حج میں تمام بِلاد و اَمصارِ اسلامی کے علما کا یہاں
اجتماع ہوتا تھا ان مقامات پر تابعین و مشائخ حدیث سے سماعِ حدیث کرتے رہے۔ آپ نے
تقریباً چار ہزار مشائخ سے کسبِ علم فرمایا۔
شرفِ
تابعیت:
حضرت امام ِ اعظم کی خوش نصیبی تھی کہ آپ
نےاس مبارک زمانے میں آنکھ کھولی جس میں رسول اللہﷺ کےجمالِ جہاں آراء کی زیارت
کرنےوالے کئی حضرات حیات تھے۔ ان کی زیارت کرکےشرفِ تابعیت سےمشرف
ہوئے،اوران سےکسبِ علم کرکےبشارتِ نبوی کےمصداق ٹھہرے۔آپ نےجن صحابۂ کرام کی زیارت
کی اُن کےاَسمائے گرامی یہ ہیں:
1. حضرت انس بن مالک
2. حضرت عبداللہ بن انیس
3. حضرت عبداللہ بن حارث
4. حضرت عبداللہ بن اوفیٰ
5. حضرت عامر بن واثلہ
6. حضرت معقل بن یسار
7. حضرت جابر بن عبداللہ
8. حضرت عبداللہ بن انس۔
(امامِ اعظم کامحدثانہ مقام: ص72)
سیرت
وخصائص:
امام الائمہ، کاشف الغمہ، سراج الامّہ،امامِ
اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت نے جس ذوق وشوق کے ساتھ علومِ اسلامی کی تحصیل کی
وہ اپنے وقت کے بے نظیر فقیہ،مجتہد،امام الحدیث اور عبقری عالم بن گئے۔ قدرت نے ان
کی ذات میں بے شمار صوری ومعنوی خوبیاں جمع کر دی تھیں اور وہ بلا ریب رسول اللہ
ﷺکے سچےجانشین تھے۔آپ متقی، صاف و بے داغ کردار کےحامل،اور پرہیز گار
عالم و فقیہ تھے۔ انہوں نے علم کو بصیرت، فہم و فراست اور تقویٰ کے ذریعے اس طرح
کھول کر بیان کیا جیسا کسی اور نے نہیں کیا۔ (عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان)
امام عبداللہ بن داؤدفرماتےہیں:
لا یتکلم فی ابی حنیفۃ الا احد رجلین اما
حاسد لعلمہ واما جاھل بالعلم لایعرف قدر حملتہٖ۔
’’ابو
حنیفہ پر ردوقدح کرنے والا یا تو ان کے علم سے حسد کرنے والا ہے یا علم کے مرتبے سے جاہل ہے، وہ علم کے حاملوں کی قدر سے
بے خبر ہے۔ (اخبار ابی حنیفۃ،ص۵۴)
امام شافعی
فرمایا کرتے تھے:
’’جو آدمی فقہ میں ماہر ہو گا، وہ امام ابو
حنیفہ کا محتاج ہوگا۔ یہ بھی فرمایا کہ میں ابو حنیفہ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں
جانتا اور لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے عیال ہیں، جس نےامام ابوحنیفہ کی کتابیں نہیں
دیکھیں، وہ علم میں ماہر نہیں ہوسکتا اور نہ فقیہ ہوسکتا ہے۔‘‘(عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ لنعمان)
جب امامِ اعظمروضۂ رسولﷺ پر
حاضر ہوئے اور عرض کیا:
اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ !
تو جواب ملا:
عَلَیْکَ السَّلَامُ یَا اِمَامَ الْمُسْلِمِیْنَ! (خزینۃ الاصفیاء: 91)
حضرت یحییٰ
بن معاذ رازی
فرمایا کرتے تھے کہ میں نے پیغمبرِ خدا ﷺکو خواب میں دیکھا تو عرض کیا:یارسول
اللہﷺ!میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ فرمایا: علم ابوحنیفہ کے پاس ۔ خواجہ محمد پارسا نے فصولِ ستّہ میں لکھا ہے کہ امامِ اعظم کا وجود
حضورﷺکے معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ حضرت امامِ ابوحنیفہ اُس مذہب پر
گام زَن ہیں کہ جس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک حکمرانی فرمائیں
گے۔ قطب العالم حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر اپنی کتاب راحت القلوب میں لکھتے ہیں کہ
جناب امام ابوحنیفہ جب آخری مرتبہ حجِ
بیت اللہ کوتشریف لے گئے تو رات کے وقت کعبۃ اللہ کا دروازہ پکڑ کر ایک پاؤں
پر کھڑے رہے اور نصف قرآن ختم کردیا، پھر دوسرے پاؤں پر کھڑے رہے اور بقیہ نصف ختم
کیا۔ پھر کہا:
ما
عرفناک حق معرفتک وما عبدناک حق عبادتک۔
غیب سےآوازآئی:
ابوحنیفہ! تم نے پہچان لیا، جیسے کہ
پہچاننے کا حق ہے اور تم نے میری عبادت کی جیسا کہ حق ہوتا ہے، ہم تمہیں اور تمہارے
مقلدین کو بخش دیں گے۔(خزینۃ
الاصفیاء: 91)
حضرت امامِ اعظم علم و فضل کی بے اندازہ
دولت کے ساتھ عمل صالح اور اَخلاقِ حسنہ کا مثالی پیکر تھے۔ اُن کی زندگی کا ایک
ایک لمحہ اتباعِ سنّت میں گزرتا ، شریعتِ اسلامی کی نزاکتوں کا پورا خیال رکھتے۔
خدا ترسی اور ورع و تقویٰ کا یہ حال تھا کہ پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے،
ترہیب کی آیتوں پربے اختیار آنسو جاری ہوجاتے۔ ایک بارجب اس آیت: وَالسَّاعَةُاَدْهٰى
وَاَمَرُّ پر پہنچے تو اسی کو رات بھر دہراتے اور
روتے رہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت سے غیر معمولی شغف تھا۔ امامِ اعظم جس جگہ سے
گرفتار کر کے بغداد بھیجے گئے اس جگہ سات
ہزار مرتبہ قرآن شریف ختم کیا۔مشہور محدث
حفص بن عبدالرحمان فرماتے
ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے تیس سال تک ایک رات میں پورا قرآن پڑھ کر قیام لیل
فرمایا تیس سال برابر روزے رکھے۔ حضرت امام
عبدالعزیز بن ابی رواد فرماتےہیں:
آپ سےمحبت اہلِ سنّت کی علامت، اورآپ سےبغض اہلِ بدعت کی علامت ہے۔
(سیراعلام النبلاء:ج6،ص536)
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے حدیث کے
تمام انواع و اقسام پر اجتہادی نوعیت سے کام کیا ہے۔بصیرت افروز راہ نما اصول قائم
کیے ہیں اور محض روایتی انداز سے سماعِ حدیث کرنے والوں کو عقل و آگہی کی روشنی دی
ہے، ان کے حلقۂ درس میں شریک ہو کر نہ جانے کتنے افراد دنیائے علم و فضل میں اَمر
ہوگئے۔ان کے تلامذہ کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ذروں کو اٹھایا تو رشکِ
ماہتاب بنادیا، یہ حنفی سلسلے کی کڑیاں تھیں جو احادیثِ رسول سے قرناً فقرناً ائمہ
و مشائخ کے سینوں کو منوّر کرتی چلی گئیں۔سلام ہو اس امام پر جس نے
جھلملاتے چراغون کو سورج کی توانائیاں بخشیں،آفرین ہو اس کی فکرِ صائب
پر جس نے اسلامی علوم کو رعنائیاں دیں،آج دینی علوم کے تمام شعبوں میں انہیں کے
فیض کے دھارے بہہ رہے ہیں ۔جب تک علم کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ جب تک درس
گاہوں میں فقہ و حدیث کا چرچا رہے گا، زمانہ امامِ اعظم ابو حنیفہ کو سلام کرتا
رہے گا۔
وصالِ پُر ملال: 2؍شعبان المعظّم 150ھ۔
مزارِ
پُر اَنوار: آپ کامزار’’اعظمیہ‘‘ عراق میں منبعِ فیوض وبرکات ہے۔
قاضی ِبغداد حسن بن عمارہ نے وفات کے بعد آپ کو غسل دیا اور فرمایا تم پر اللہ
رحم فرمائے، تین سال سے افطار نہیں کیا اور چالیس سال سے رات کو کروٹ نہ لی ہم میں
آپ سب سے زیادہ فقیہ تھے اور سب سے زیادہ عبادت گزار تھے اور ہم میں سب سے زیادہ
بھلائی کی خصلتوں کو جمع کرنے والے تھے اور جب دفن ہوئے تو بھلائی اور سنّت کے
ساتھ دفن ہوئے۔(حیاتِ
محدثین:25)۔
مآخذومراجع:
1. حدائق الحنفیہ
2. تذکرۃ المحدثین
3. حیات المحدثین
4. خزینۃ الاصفیاء
5. امام اعظم کامحدثانہ مقام
6. وفیات الاعیان۔



