منگل , 25 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Tuesday, 16 December,2025

مولانا رستم علی بن علی اصغر قنوحی قدس سرہ

  آپ ہندوستان کے جیّد علماء کرام میں سے مانے جاتے ہیں علوم فقہ حدیث اور تفسیر میں بڑی دسترس حاصل تھی۔ ہندوستان کے علماء اور ایران و خراساں کے علماء میں سے آپ کی رائے پر تمام اتفاق کرتے تھے۔ اتنے علم و فضل کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے آپ کو کمترین از دردیشان شمار کرتے تھے۔ دن رات تعلیم و تدریس میں رہتے اور مخلوق خدا کی ہدایت میں مصروف ہوتے ہزروں طلبا آپ کے درس سے فیض یاب ہوئے تفسیر جامع صغیر آپ کی تالیف ہے۔ یہ تفسیر قرآن پاک کے معانی سمجھنے میں تفسیر جلالین سے بھی عمدہ مانی گئی ہے آپ کی وفات ۱۱۷۸ھ میں ہوئی۔ از جہاں رفت چوں بخلد بریں گفت سرور بسال رحلت او نیز کن عاشق بہشت نظم ۱۱۷۸ھ   میر رستم علی ولی والی میر گل رستم علی و نبی ۱۱۷۸ھ سالِ ترحیل آں تقی و نقی (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

خواجہ ایوب قریشی قدس سرہ

  صاحب تصرف اور صاحب کشف کرامات تھے۔ زہدو ورع تقویٰ میں جامع الکمالات تھے۔ شریعت میں عالم دین تھے۔ حقیقت میں کاشف اسرار تھے۔ مخزن امور ہمہ دانی۔ اور عالمِ علوم ربانی تھے افضل العلماء اور اکرام الفقہا تھے۔ صاحب تصنیف تھے۔ آپ کی مشہور کتابیں مخزن عشق شرح مثنوی مولانا روم شرح ایوب سے مشہور تھے۔ مقبول عوام و خواص ہوئی طریقہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت مفتی حافظ محمد تقی لاہوری قدس سرہ کے مرید اور شاگرد تھے۔ آپ مولانا نقی خلف الرشید مفتی محمد تقی کے داماد تھے آپ کو سلسلہ قادریہ اعظمیہ سے کمال حاصل تھا۔ اور کاملان وقت تھے۔ یاد رہے کہ حافظ محمد تقی قدس سرہ خواجہ ایوب قریشی کے پیر و استاد تھے اور خواجہ ایوب راقم السطور (مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ) کے جَدّ پنجم تھے۔ ہمارا سلسلہ آبائی حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین ذکریا ملتانی﷫ سے یوں جا ملتا ہے۔ احقر غلام سرور بن مفتی غلام محمد قریشی بن مفتی حق آگ۔۔۔

مزید

پیر محمد اسماعیل کبروی کشمیری قدس سرہ

  عنفوان جوانی میں اللہ کی محبت دامن گیر ہوئی۔ آپ حضرت مولانا محمد شریف کبرویہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوگئے تکمیل کے بعد پشاور آئے اور ایک عرصہ تک پشاور میں ہی مقیم رہے۔ مگر کشمیر میں جاکر مستقل قیام فرمایا اور تادمِ آخر ہدایت خلق میں مصروف رہے۔ آخر کار ۱۱۵۳ھ میں فوت ہوئے آپ کا وصال ۸۵ سال کی عمر میں ہوا۔ چونکہ اسماعیل پیر با وقار سالِ اوست عالی مرتبت ۱۱۵۳ھ   گشت راہی زیحہیاں سوئے جنان نیز فضل آل اسماعیل والی ۱۱۵۳ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

شیخ فتح شاہ شطاری قدس سرہ

  آپ شاہ لطیف برہانی پوری قدس سرہ کے خلفاء میں سے تھے۔ آپ کی نسبت روحانیت حضرت شاہ سید محمد غوث گوالیاری سے جاملتی ہے آپ برہان سرالٰہی کے مرید  تھے۔ وہ شیخ عیٰسی زندہ دل کے اور وہ وجہیہ الدین گجراتی کے اور وہ سید محمد غوث گیلانی گوالیاری قدس سرہ ہم کے مرید تھے آپ ستر (۷۰) سال کی عمر میں پہنچے تو آپ کے والد کو حضرت شیخ برہان کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور ارادت سے مشرف فرمایا شاہ برہان آپ کی ظاہری و باطنی تربیت شیخ عبداللطیف کے سُپرد کردی۔ حضرت شاہ عبداللطیف نے آپ کی ظاہری باطنی تربیت کی اور نہایت جذب و مستی میں فتح شاہ سرمست کے خطاب سے مشہور ہوئے حضرت مرشد نے تربیت کے بعد آپ کو لاہور کی ولایت پر مامور فرمایا۔ ایک بار دریائے راوی میں طغیانی آگئی۔ اُس کی موجیں قلعہ لاہور سے ٹکرانے لگیں حاکم لاہور بڑا گبھرایا۔ حضرت فتح شاہ سرمست کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دعا کی استدعا کی آپ نے حاکم۔۔۔

مزید

مولانا اصغر علی قنوجی قدس سرہ

  آپ برصغیر ہندوستان کے اجل عالم اور فقہیہ تھے علم حدیث تفسیر فقہ صرف و نحو منطق معانی میں امام تھے۔ اپنے عہد کا کوئی عالم دین ان علموں میں آپ کا ہم پلہ نہ تھا۔ آپ کی تفسیر ثوابت التزیل، ادبی نکتہ نظر سے کشاف سے بھی بلند پایہ ہے اور علوم شریعیہ میں تفسیر بیضادی سے فوقیت رکھتی ہے۔ آپ ہی کی تالیف ہے۔ آپ کی وفات ۱۱۴۰ھ میں ہوئی بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کا  سال وصال اس مصرع سے لیا ہے [۱]۔ [۱۔تذکرہ علماء ہند (مولوی رحمن علی) مولوی علی اصغر بن عبدالصمد قنوج کے اکابرین میں سے تھے ۱۰۵۱/۱۶۴۱ میں پیدا ہوئے ملا محمد قنوجی اور اسد عصمت اللہ سے ابتدائی تعلیم پائی ملا محمد زمان کا کوری نے تکمیل کی۔ شاہ پیر محمد لکھنوی کے مرید ہوئے ساٹھ سال تک تدریس کی علماء فضلاء نے آپ سے تربیت پاکر  فضیلت حاصل کی آپ کی یہ تصانیف مشہور عالم ہوئیں الایٔعہ العلیہ۔ تبصرۃ المدارج سلوک۔ النفایٔس العلیہ۔ تفسیر ثوا۔۔۔

مزید

میر محمد ہاشم قادر گیلانی قدس سرہ

  آپ حسنی سادات میں سے تھے آپ کی آبائی نسبت حضرت غوث الاعظم سے ملتی ہے۔ میر محمد ہاشم بن سید محمد عیلان بن سید عبداللہ۔ بن سید احمد بن سید عمر بن سید ابراہیم بن سید حسین بن سید  محمد صرمونی بن سید یوسف بن سید عبدالرزاق بن سیّد میمون بن سید مسعود بن سید محمد بن میر حسن بن حیات میر بن محمد صالح بن حضرت غوث الاعظم قطب العالم محی الدین سید عبدالقادر جیلانی﷜ آپ اعتقادی طور پر کوہ راسح اور عبادت میں بحربے کراں تھے۔ ہدایت میں صاحب المکارم و  المکاقب تھے ۱۱۳۳ھ میں کشمیر کے خطۂ بے نظیر میں وارد ہوئے۔ دن رات تلاوت قرآن میں مشغول رہتے عام لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرتے تھے نماز فجر سے لے کر اشراق تک ذکر جہر میں مشغول رہتے تھے۔ ثمرات الاشجار اور تواریخ اعظمیٰ نے آپ کی کرامات درج کی ہیں۔ آپ ہفتم شوال ۱۱۳۵ھ کو فوت ہوئے۔ رفت از دنیا چو میر ہاشمی گفت تاریخ وصال اوخرد   روح اوشد و۔۔۔

مزید

قاضی دولت شاہ حسینی بسوی بخاری قدس  سرہٗ

  آپ روس کے علاقہ بسرام میں پیدا ہوئے بخارا میں نشو و نما پائی۔ سید محمد شریف بخاری قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر روحانی تربیت پائی ظاہری و باطنی علوم پر دسترس حاصل کی۔ کمالات علمی و معنوی پر فائز ہوئے سالہا سال ماؤرالہنر اور شمالی ترکستان کے علاقوں میں لوگوں میں فیض پھیلاتے رہے عمر کے آخرین حصہ میں حرمین الشرفین کی زیارت کو گئے دوران سفر کاشخر سے ہوتے ہوئے وادیٔ کشمیر میں پہنچے تین سال سے زیادہ کشمیر میں قیام پذیر رہے ایک کثیر مخلوق کو خدا رسیدہ بنایا ہندوستان کا رُخ کیا تاکہ حج کو جائیں دہلی پہنچے مگر بادشاہ کی التماس پر کچھ عرصہ دہلی میں قیام فرمایا اور اسی دوران فرشتہ اجل آپہنچا۔ چنانچہ ۱۵؍شوال ۱۱۲۶ھ میں فوت ہوئے۔ رفت چوں ازجہاں بخلد بریں گفت تاریخ رحلتش سرور   شاہ دولت ولی عالی جاہ شاہ ابدال اہل دولت شاہ ۱۱۲۶ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

میر ابوالفتح قادری سہروردی قدس سرہ

  آپ کی والدہ ماجدہ میر محمد علی سہروردی کی بیٹی تھیں چونکہ میر محمد علی قدس سرہ کی اپنی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ آپ نے اپنے نواسے کی تربیت اور تعلیم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ رحلت کے وقت انہیں مسند ارشاد پر بٹھایا حضرت میر کے بعد میرابوالفتح نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس سلسلہ طریقت کو جاری رکھا اور مخلوق خدا کو بڑی تن دہی سے راہ  ہدایت دکھاتے رہے۔ آپ کی وفات ۱۱۲۵ھ میں ہوئی تواریخ اعظی نے خلیفہ شاہ جیلانی سے تاریخ وفات لی ہے۔ حضرت بوالفتح میر با کمال سال تاریخش بقول اہل خبر   شد چو از دنیا بحنت جائے گیر داں معلّی اشرف الاخلاق میر ۱۱۲۵ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

سلطان میر جو کشمیری قدس سرہ

  آپ خلیفہ نور محمد پروانہ کے برادر زادہ تھے۔ آپ نے ظاہری اور باطنی تربیت خلیفہ نور محمد سے پائی دنیاوی مصروفیتوں کے باوجود ریاضت اور عبادت میں وقت گزارتے شیخ محمد امین ڈار اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ سلطان میر بزرگان دین میں سے تھے۔ اور چاروں سلسلوں سے فیض یافتہ تھے نسبت قادریہ اور نقشبندیہ آپ کی وفات پر غالب تھی۔ ۱۱۲۵ھ میں انتقال فرمایا۔ چو سلطان میر از جہاں رفت بست شد از دل بتاریخ ترحیل او   بجنت شد آن جلوہ گر ماہ و دین میاں میر سلطان شہنشاہ دین ۱۱۲۵ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

شیخ عنایت اللہ کافی کشمیری قدس سرہ

  آپ کشمیر کے مشہور طبیب حافظ محمد شریف کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ ظاہری اور باطنی علوم میں یکتائے روزگار ہونے کے باوجود علم طب میں یدعیسیٰ کے مالک تھے۔ تاریخ دومری کے مولّف نے لکھا ہے ایک بار شیخ عنایت اللہ کافی اپنے احباب کے ساتھ ایک تقریب میں کشمیر کے خوبصورت علاقوں کی سیر کے لیے نکلے۔ آپ نے فرمایا۔ اگرچہ میرا مصمم ارادہ تھا۔ کہ چند روز مزید سیر و سیاحت میں صرف کرتا۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ مجھے جلدی سے  شہر کی طرف واپس جانا چاہیئےاسی دن مجلس میں سے ایک دوست گھوڑے سے گرپڑا۔ ادھر بے پناہ بارش برسنے لگی۔ اسی دوران ناظم کشمیر جعفر خان کا پیغام آیا۔ کہ چونکہ وہ شدید بیمار ہے اس لیے حکیم صاحب فوراً سرینگرپہنچیں آپ گھوڑے پر سوار ہوئے برستی ہوئی بارش میں سفر کرنے لگے راستہ میں گھوڑا پھسلا۔ حکیم صاحب گرپڑے ابھی شہر نہ پہنچے تھے۔ کہ خبر آئی کہ جعفر خان کا انتقال ہوگیا ہے۔ شیخ عنایت اللہ تو۔۔۔

مزید