عمر فاروق بن
خطاب، امیرالمومنین حضرت سیّدنا
نام : عمر
کنیت: ابوالحفص
لقب:
فاروق اعظم
نسب:
آپ کاسلسلۂ نسب اس طرح ہے:
عمر بن خطاب بن فضیل بن عبدالغزیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن فرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی۔
آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام بن
مغیرہ بن عبداللہ بن عمر وبن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب۔
یہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی
چچازاد بہن تھیں۔آپ کا نسب والد کی طرف سے حضور ﷺکے نسب نامہ کعب پر ملتا ہے۔(شریف
التواریخ)
تاریخِ ولادت: آپ واقعۂ فیل کے 13 سال بعد
پیداہوئے۔(تاریخ
الخلفاء:265،خزینۃ الاصفیا:52)
قبولِ اسلام:
رسولِ اکرم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:
’’ اَللّٰھُمَّ اَعِزَّالْاِسْلَامَ
بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ‘‘(الصواعق
المحرقہ ،ص،331)
تو
اس اعتبار سے حضرت عمر مرادمصطفیٰ ﷺہیں۔ بعثتِ رسولِ پا کﷺ کے چھٹے سال اور
حضرت امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ کےایمان لانے کے تین دن بعد ایمان لائے ۔ آپ
چالیسویں مسلمان تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبول اسلام کی خوشی میں
مسلمانوں نےبآوازِ بلند نعرۂ تکبیر لگایا جس سے پوری وادی گونج اٹھی ۔اور حضرت
جبریل امین باگاہ رسالت پناہﷺمیں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺآج آسمان
والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی خوشی منارہے ہیں اور اور آپ کو
مبارکباد پیش کر رہے ہیں۔
جس دن حضرت عمررضی اللہ عنہ ایمان لائے تو
یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
ترجمٔہ کنز الایمان :’’اے غیب کی خبریں
بتانے والے نبی !اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنےمسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔‘‘ (سورۃ
الانفال ،آیت 63)
فضائل
ومناقب:
حضورﷺنے فرمایا کہ پہلی
اُمتوں میں’’ مُحدَّثین‘‘(جن کو اللہ تعالیٰ حق بات کا الہام کرتا ہے اور ان کی
زبان پر حق جاری فرماتا ہے) ہوا کرتے تھے اور میری امّت میں عمر رضی اللہ
عنہ ایسے شخص ہیں جن کی زبان سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے۔(الصواعق
المحرقہ:335)
جس
معاملے میں صحابہ گفتگو کرتے تھے، حکمِ الٰہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے
مطابق نازل ہوا کرتا تھا۔قرآن مجید کی متعدد آیاتِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں۔
رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:
’’اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہوتا تو وہ عمر بن
خطاب ہوتے۔‘‘(جامع
ترمذی،ج2 ، ص 563)
خلافتِ
عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو
عالمﷺ نے ارشادفرمایا:
میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈول میں نے
کنویں میں ڈالا اور اس سے پانی کھینچنے لگا اور اس وقت تک پانی کے ڈول کھینچتا رہا
جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد سیّدنا ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ پانی کھینچنے
لگے۔ ابھی آپ نے دو ایک ڈول کھینچے تھے کہ تھک گئے ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی
اللہ عنہ آگے بڑھے اور ڈول کھینچنے لگے۔ میں نے آپ سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں
دیکھا تھا۔ آپ نے تمام حوض کو پانی سے بھر دیا اور خَلقِ خدا کو سیراب کردیا۔‘‘(صحیح
بخاری،حدیث، ۳۶۸۲)
یہ عہدِ خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف
اشارہ تھا۔ آپ نے فارس کے ہزاروں شہر اور قصبے فتح کیے اور بے پناہ لوگ دامنِ
اسلام میں آئے۔
27؍جمادی الآخرہ 13ھ بروز منگل، آپ
مسندِ خلافت پرجلوہ افروز ہوئے۔ آپ کی مدّتِ خلافت دس سال آٹھ ماہ تھی۔ حضرت عمر
فاروق نے دس سالوں میں 22لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیرآرگنائزڈآرمی کے فتح
کیا ۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں رو م اورایران بھی
شامل ہیں ۔ آج سیٹلائٹس میزائلز اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں
کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔ حضرت عمر فاروق نے دنیا کوایسا نظام (System)
دیا جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔
شہادت:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
دعا مانگا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃًفِیْ سَبِیْلِکَ
وَاجْعَلْ مَوْتِیْ بِبَلَدِ رَسُوْلِکَ(ﷺ)۔(مؤطا امام مالک
،حدیث ،۹۳۴)
ترجمہ: ’’اے
اللہ مجھے شہادت کی موت نصیب فرما اور میری موت اپنے رسول ﷺ کے شہر میں مقدر فرما۔‘‘
اللہ
تعالیٰ نے مدینے میں ہی شہادت عطا کر کے نبی ﷺ کے قدموں میں جگہ بھی عطا فرما دی ۔
آپ ان تین زخموں سے واصل بحق ہوئے جو ایک بدنہاد ابو لولؤ فیروز مجوسی
نے دھوکے سے لگائے تھے ۔
تاریخِ شہادت:
آپ کی تاریخِ
شہادت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:
امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر
بدھ کے دن 26؍ ذی الحجہ 23 ہجری کو شہید ہوئےاور ہفتےکے دن محرم کی چاند رات کو
دفن کیے گئے
(تاریخ الخلفاء صفحہ310 ) اور ان کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 29؍ ذی الحج سنہ 23ہجری کوہوئی،اور محرم الحرام 24ھ کی
یکم کوآپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔اسی طرح 28، 29اور یکم محرم کی روایات
بھی ملتی ہیں۔(شریف
التواریخ۔خزینۃ الاصفیاء۔الفاروق۔ابن کثیر۔طبقاتِ ابنِ سعد)
