ابو بکر صدّیق، خلیفۂ
اوّل، امیرالمومنین،حضرت سیّدنا
نام : عبداللہ۔
کنیت: ابو بکر۔
اَلقاب: صدّیق، عتیق، صدّیقِ اکبر، افضل
البشر بعد الانبیاء، یارِ غار، ثانی اثنین، خلیفۃ المسلمین، امیرالمومنین۔
سلسلۂنسب:
سلسلۂ
نسب اس طرح ہے:
عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب
بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب۔
حضرت کعب پر جاکر حضرت ابو بکر صدّیق کا سلسلۂ نسب
رسولِ اکرمﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ کی والدہ کا نام امّ
الخیر سلمیٰ بنت ِ صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب
ہے۔
حلیہ شریف:
رنگ سفید، جسم دبلا پتلا اور رخسار کم گوشت تھے۔ چہرۂ اقدس کی
ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں، داڑھی اور سرِ مبارک کے بال گھنے تھے۔ (الریاض النضرۃ،ج1، ص82)
قبولِ اسلام:
آپ قبولِ
اسلام سے پہلے ایک کامیاب تاجر تھے اور اپنے عمدہ اَخلاق اور حُسنِ معاشرت کی وجہ
سے اپنی قوم میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے، دیگر سردار مختلف اُمور میں آپ سے مشورے
بھی کیا کرتے تھے۔ 16یا 18سال کی عمر میں حضورِ اکرمﷺ کی صحبتِ مبارکہ
میں آئے، حضورﷺ کے اعلانِ نبوّت کے فوراً بعد 38 سال کی عمر میں ایمان لے آئے۔
حضرت سیّدنا ابراہیم
نخعیفرماتے ہیں:
اوّل من اسلم ابوبکر الصّدّیق۔
ترجمہ: ’’سب سے پہلے اسلام
قبول کرنے والے حضرت سیّدنا ابوبکر صدّیق ہیں۔‘‘
(سنن الترمذی ،رقم الحدیث،۳۷۵۶(
چار پشتیں صحابی:
حضرت صدّیقِ اکبر ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی چار (4) پشتوں میں
صحابی ہوئے:
1.
آپ
کے والد حضرت ابو قحافہ عثمان بن عامر
2.
آپ
خود یعنی حضرت ابو بکر صدّیق
3.
حضرت
ابو بکر صدّیقکے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن
4.
حضرت
ابو بکر صدّیق کے پوتے محمد بن عبدالرحمٰن
یعنی
محمد بن عبدالرحمٰن بن ابو بکر صدّیق بن ابو قحافہ عثمان، اِن چار پشتوں کو صحابیِ رسولﷺ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
صحابی چار پشتیں: باپ، خود، اولاد اور پوتا
مبارک ہے نسب کتنا مِرے صدّیقِ اکبر کا
(ندیم احمد نؔدیم نورانی)
علاوہ ازیں، حضرت ابو بکر صدّیق کے دیگر صاحبزادگان
اور صاحبزادیوں اور نواسے کو بھی شرفِ
صحابیت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔
وفا
دار ساتھی:
حضرت ابو بکر صدّیق تمام عمر حضورِ
اکرمﷺ کے انتہائی وفادار ساتھی رہے۔آپ نے
ہر مشکل گھڑی میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا، غارِ
ثور میں آپﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی یہاں تک کہ سانپ نے
آپ کو ڈس لیا۔ آپ بدر، اُحُد، حنین، فتح مکہ
وغیرہ غزوات میں آپﷺ کے ہمراہ رہے اور اپنی وفا داری کا ثبوت دیا۔
حضورِ
اکرمﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدّیق سے ارشاد فرمایا
’’ تم میرے صاحب(رفیق، ساتھی) ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔‘‘
فضائل ومناقب:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ
فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ
اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ
مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ۔
ترجمہ:
’’اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بے شک اللہ نے ان کی
مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے
یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا
سکینہ(اطمینان) اتارا۔‘‘ (پ10، التوبۃ:40)
اس آیتِ مبارکہ میں غارِ ثور کے واقعے کی طرف اشارہ ہے، جو
مدینۂ منوّرہ کی طرف ہجرت کے دوران پیش آیا۔ اس آیتِ شریفہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے
ايک يہ کہ حضرت ابوبکر صدّيق کی
صحابيت بحکمِ قرآنی لِصَاحِبِهٖ قطعی
ہے لہٰذا، اس کا انکار کفر ہے۔ دوسرا يہ کہ حضرت صدّيقِ اکبر کا درجہ حضورﷺکے بعد
سب سے بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے
سر پر ثَانِیَ اثْنَیْنِ (یعنی دو میں سے دوسرا) کا تاج سجايا ہے،اور
جب اللہ تعالیٰ انہيں دوسرا بنا چکا ت تو اُنہيں تيسرا يا چوتھا کرنے والا
کون ہے ۔ وہ تو قبر ميں بھی دوسرے ہيں حشر ميں بھی دوسرے ہوں گے۔
یعنی اُس اَفْضَلُ الْخَلْقِ بَعْدَ الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش، حصّۂ دوم (
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا!
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا
بدلہ چکا دیا ہے،مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ
قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔‘‘ (سنن الترمذی،رقم الحدیث :3681)
اَفضلیتِ صدّیقِ اکبر:
امام بخاری راویت فرماتے ہیں کہ حضرت محمد
بن حنفیہ صاحبزادۂ حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ نے فرمایا:
قلت لأبي: أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال: أبو بکر، قال: قلت: ثم من؟ قال: عمر)۔
یعنی
میں نے اپنے والدِ ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم
اللہ تعالٰی وجہہ سے عرض کیا کہ رسول ﷺکے بعد سب آدمیوں سے
بہتر کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: ’’ابو بکر‘‘، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: ’’عمر‘‘۔
(صحیح البخاری، رقم الحدیث:3671)
اہلِ سنّت
وجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ بعدِ انبیا ومرسلین،تمام مخلوقتِ الہی انس و جن وملک
وغیرہ سے افضل حضرت ابوبکر صدّیق ہیں، پھر حضرت فاروقِ اعظم، پھر حضرت
عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی۔ (بہارِ شریعت ،جلدِ اوّل،امامت
کا بیان، ص241)
خلافتِ صدّیقِ
اکبر:
حضرت ابو بکر صدّیق حضور نبی اکرمﷺ کے
خلیفۂ اوّل (پہلے خلیفہ) ہیں۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی للہ
تعالٰی عنہاسے
روایت ہےکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے مرضِ وفات میں مجھ سے ارشاد فرمایا:
’’ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلالاؤ تاکہ
میں انہیں پروانہ (خلافت)لکھ دوں ،مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنّا کرنے والا اپنی خواہش
کااظہار کرتے ہوئے یہ نہ کہہ دے کہ میں زیادہ حق دار ہوں کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور
مسلمان ابوبکر کے علاوہ کسی سے راضی نہ ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم،رقم ا لحدیث:2387)
سیّدنا جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک عورت
اپنی کسی حاجت کی وجہ سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی تو آپﷺ نے اسے دوبارہ
آنے کا حکم ارشاد فرمایا، وہ کہنے لگی:یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں دوبارہ آؤں اور
آپ کو نہ پاؤں تو؟ (گویا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کا ذکر
کررہی تھی۔) سرور ِ عالمَﷺنے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے
پاس چلی جانا ۔‘‘ (صحیح البخاری،رقم الحدیث:3659)
حضورِ اکرمﷺ کی حیاتِ ظاہری میں حضرت صدّیقِ اکبر
کو 17 نمازوں کی امامت کا شرف حاصل ہوا اور
حضورِ اکرمﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد تمام مہاجرین و انصار صحابۂ کرام نے
آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور متفقہ طور پر آپ کو پہلا ”خلیفۃُالمسلین“ تسلیم کرلیا۔
شیخین کی خلافت کامنکر کافر ہے:
شیخینِ کریمین کی خلافت
پر صحابۂ کرام کا اجماع ہے؛ لہٰذا، اُن کی خلافت کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
(بہارِ شریعت،جلدِ اوّل،امامت
کا بیان،ص253)
اعلیٰ
حضرت عظیم البرکت، مجددِ دین وملّت الشاہ امام احمد رضا خاں فرماتے ہیں:
’’وجیزامام کردری مطبوعہ مصر جلد 3،ص 318میں
ہے:
من انکرخلا فۃ ابی بکر رضی اللہ
تعالٰی عنہ فھو کافر فی الصحیح ومن انکر خلافۃ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فھو کافر
فی الاصح۔
ترجمہ:
خلافتِ ابو بکر کا منکر کافرہے، یہی صحیح ہے، اور خلافتِ عمر
فاروق کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ،جلد14،ص251)
راہِ خدا میں خرچ اور نصرتِ اسلام:
جب
آپ ایمان لائے، تو اُس وقت آپ چالیس ہزار (40000) درہم یا دینار کے مالک تھے، وہ
سب آپ نے راہِ خدا میں خرچ کر کے اسلام کی خوب مدد اور نصرت فرمائی۔ آپ نے نبی
اکرمﷺ کی اس قدر مالی طور پر خدمت کی کہ حضورﷺ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ
’’مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال
نے پہنچایا ۔‘‘
قرآنِ مجید:
حضرت
صدّیقِ اکبر ہی نے سب سے پہلے قرآنِ مجید کو جمع کرنے کا شرف حاصل
کیا۔
فتوحات:
حضرت ابو بکر صدّیق نے اپنے دورِ خلافت میں عراق و شام کےمتعدد شہر فتح کیے؛
جن میں اُردن، اَجنادِین، مقام
ِحِیرَہ اور دَوْمَۃُ الْجَنْدَل کے نام
قابلِ ذکر ہیں ۔
مسیلمہ کذّاب کے خلاف جنگ:
نبوّت کے جھوٹے دعوے
دار مسیلمہ کذّاب کا فتنہ حضور نبی کریمﷺ کے زمانے ہی میں شروع ہو چکا تھا، لیکن حضرت
سیّدنا صدّیقِ اکبر کے دورِ خلافت
میں یہ فتنہ جب حد سے بڑھ گیا تو آپ نے مسیلمہ کذّاب اور اُس کے ماننے والوں سے جنگ کا آغاز فرمایا۔ چناں
چہ آپ نے حضرت سیف اللہ خالد بن ولید کی
سربراہی میں 24 ہزارمجاہدین کا لشکر بھیجا،
جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ لڑی۔ اِس جنگ میں سب سے پہلے لشکرِ
اسلام کی کمان حضرت عکرمہ کے ہاتھ میں تھی، اُن کی شہادت کے بعد حضرت شرجیل بن
حسنہ نے کمان سنبھالی، جب یہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولیدنے مجاہدین کے
لشکر کی کمان سنبھال لی۔ اس جنگ میں 1200
مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حفّاظ و قراء صحابۂ کرم بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو
زبردست فتح ہوئی۔
مسیلمہ کذّاب سمیت
اُس کے لشکر کےتیس ہزار (30000) اَفراد واصل بَہ جہنم ہوئے ۔
اِس جنگ کو ’’جنگِ یمامہ“
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جو دَورِ صدّیقی میں تحفّظِ عقیدۂ ختمِ نبوّت کی پہلی
جنگ تھی۔
زکوۃ کے منکرین کے خلاف جہاد:
حضرت
صدّیقِ اکبر کے دورِ خلافت
میں جب منکرینِ
زکوٰۃ کا فتنہ اُٹھا تو آپ نے اُس کے خلاف بھی جہاد فرما کر اُس فتنے کا قلع قمع
فرمایا۔
سیرت
و کردار:
حضرت صدّیقِ اکبر خوفِ خدا،
عشقِ رسولﷺ، جاں نثاری ،ایثار وقربانی ، علم و حکمت، نور ِ فراست، تقویٰ
و پرہیز گاری، سنجیدگی و متانت، قناعت و شجاعت ا ور
صداقت میں بے مثال تھے۔ آپ پیکرِ صدق و
وفا تھے۔ سادگی، عاجزی، بُردباری، ایمان داری، نرم روی، رحم دلی، فیاضی اور غریب
پروری آپ کے اخلاق و عادات کا حصہ تھیں۔ آپ بیماروں کی عیادت کرتے، کسی کے انتقال پر
اس کے گھر والوں سے تعزیت کرتے، ذاتی رقم
ادا کرکے نَو مسلم(نئے مسلمان ہونے والے) غلاموں کوان کے ظالم آقاؤں
سے خرید کر آزاد کردیا کرتے تھے۔ آپ نے قبولِ اِسلام سے پہلے بھی نہ کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ ہی آپ کبھی برے کاموں کے قریب گئے۔ قبولِ اسلام
کے بعد، کسی نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے دورِ جاہلیت میں کبھی شراب
پی تھی؟ تو آپ نے جواب دیتے ہوئے
ارشاد فرمایا: میں ہمیشہ اپنی عزت اورغیرت
کی حفاظت کرتا تھا جب کہ شراب پینے والے کی عزت وغیرت دونوں ضائع ہوجاتی ہیں۔
اَزواج و
اَولاد:
حضرت صدّیقِ اکبرنے چار (4)
شادیاں کی تھیں، جن کا مختصر احوال درجِ ذیل ہے:
پہلا نکاح:
پہلا نکاح امِّ قتیلہ (بعض کے نزدیک نام ’’امِّ قتلہ‘‘ تھا) بن
عبدالعزی سے کی، اس نے اسلام قبول نہیں کیاتھا، اسی وجہ سے حضرت صدّیقِ اکبر نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اس نکاح سے حضرت صدّیقِ اکبر کےسب سے بڑے بیٹے حضرت
عبداللہ اور سب سے بڑی
بیٹی حضرت اَسما پیدا ہوئیں۔
دوسرا نکاح:
دوسرا نکاح زینب بنتِ عامر سے ہوا، جو اپنی کنیت ’’اُمِّ رومان‘‘سے
مشہور ہیں۔ حضرت اُمِّ رومان سے ایک بیٹے حضرت عبدالرحمٰن اور ایک
بیٹی حضرت عائشہ صدّیقہ پیدا ہوئیں، جو حضور نبیِ اکرمﷺ کی اَزواجِ مطہرات میں شامل ہوئیں اور جنھیں زمانہ
’’امّ المومنین‘‘ کے خطاب سے یاد کرتا ہے۔
تیسرا نکاح:
تیسرا نکاح حبیبہ
بنتِ خارجہ بن زید سے ہوا، جن سے حضرت
صدّیقِ اکبر کی سب سے چھوٹی
صاحبزادی حضرت اُمِّ کلثوم پیدا ہوئیں۔
چوتھا نکاح:
چوتھا نکاح حضرت
اَسما بنت عُمَیس سے ہوا۔ اِن سے حضرت صدّیقِ اکبر کے سب سے چھوٹے صاحبزادے حضرت محمد پیدا ہوئے۔
منقبت در شانِ صدّیقِ اکبر:
یہاں یہ فقیر (ندیم احمد ؔندیم نورانی) حضرت
صدّیقِ اکبر کی شان میں اپنی
لکھی ہوئی ایک منقبت ہدیۂ قارئین کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے:
مقامِ قرب ہے کیسا مِرے صِدّیقِ اکبر
کا
نبی کے ساتھ ہے روضہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
رسولوں اور سارے انبیا کے بعد میں بے شک
ہے سب سے مرتبہ اعلیٰ مِرے صدّیقِ اکبر کا
عمر فاروق، عثمانِ
غنی، حیدر علی سے بھی
مقام و مرتبہ بالا مِرے صدّیقِ اکبر
کا
وہ دس جن کو حبیبِ ربﷺ نے جنّت کی بِشارت دی
ہے اُن میں نام بھی پہلا مِرے صدّیقِ اکبر کا
جو خلفائے محمد مصطفیٰﷺ بننے کی باری تھی
تو نمبر پہلا ہی آیا مِرے صدّیقِ اکبر کا
وہ یارِ غارِ محبوبِ خداﷺ ہیں، ہر صحابی سے
مقدّر ہے جداگانہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
صحابی چار پشتیں: باپ، خود، اَولاد اور پوتا
مبارک ہے نسب کتنا مِرے صدّیقِ اکبر کا
قرآنِ پاک ’’اَلْاَتْقٰی‘‘ سے اُن کو یاد کرتا ہے
مثالی کیوں نہ ہو تقویٰ مِرے صدّیقِ اکبر کا
رسول اللہﷺ نے معراج کی تصدیق کرنے پر
لقب ’’صدّیق‘‘ رکھا تھا مِرے صدّیقِ اکبر
کا
ضیائے طیبہ اپنا سر عقیدت سے جھکاتی ہے
سنائے جب کوئی نغمہ مِرے صدّیقِ اکبر کا
مبارک ہو، نؔدیم احمد! کہ تو نے بھی محبّت سے
کیا اَشعار میں چرچا مِرے صدّیقِ اکبر کا
رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین!
وصال:
22؍ جمادی
الثانی13ھ مطابق23؍ اگست 634ء، بروز پیر، مغرب و عشا کے درمیان تریسٹھ (63) سال
کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔آپ کی مدّتِ خلافت دو (2)سال،تین(3) ماہ اور دس(10) دن تھی۔
وقتِ وصال وصیت:
وقتِ وصال حضرت سیّدنا صدّیقِ اَکبر
نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کو میرے حبیبﷺکے روضۂ اَنور کے دروازے کے
سامنے لاکر رکھ دینا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہہ کر عرض کرنا: ’’یارسولَ اللہ ﷺ ابو بکر
آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہے‘‘۔ اگردروازہ خود بَہ خود کھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ
مسلمانوں کے قبرستان جنّت البقیع میں دفن کر دینا۔ جنازۂ
مبارکہ کو حسبِ وَصیت جب روضۂ اَقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ! ابوبکر
حاضِر ہیں۔ یہ عرض کرتے ہی دروازے کا تالا خود بہ خودکھل گیا اور آواز آنے لگی:
اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ
فَاِنَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ۔
یعنی حبیب کو محبوب سے مِلادو کہ حبیب کو
حبیب کا اِشتِیاق ہے۔
(تفسیرِ کبیر، ج10، ص167، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
نمازِ جنازہ:
حضرت ابو بکر صدّیق کی نمازِ جنازہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم نے
پڑھائی۔
مآخذ:
پہلے یہ مضمون ضیائے طیبہ کی ویب سائٹ پر مختصر شکل میں
تھا، جس میں اضافے کے لیےاس فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) نے حسبِ ذیل کتابوں سے مدد لی ہے:
1.
الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ
المبشرۃ، از امام محب الدین ابو جعفر
احمد بن عبداللہ ابن محمد طبری شافعی (متوفّٰی 694ھ)، دارالغرب الاسلامی،
بیروت، 1996ء۔
2.
فیضانِ صدّیقِ اکبر، مکتبۃ المدینہ، کراچی، دسمبر 2013ء۔
