جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


کوئی سلیقہ ہے آرزو کا





کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

 

کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتائیں

تمہیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمہارے درسے ہی لولگی ہے

 

تجلّیوں کے کفیل تم ہو مرُاد ِ قلب ِ خلیل تم ہو

خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے

 

تمہیں ہو روح ِ رَوانِ ہستی سکوں نظر کا دِلوں کی مستی

ہے دو جہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے

 

شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعیّن سے بڑھ نہ پائے

نہ چھو سکے اُن بلندیوں کو جہاں مقامِ محمدی ہے

 

نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غَیرت ِ مسیحا

ضمیرِ مُردہ بھی جی اُٹھے ہیں جِدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے

 

عمل کی میرے اساس کیا ہے بجُز  نَدامت کے پاس کیا ہے

رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے

 

عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قِسمت

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے

 

اُنھی کے در سے خدا مِلا ہے اُنھی سے اُس کا پتا چلا ہے

وہ آئنہ جو خدا نما ہے جمالِ حُسنِ حضور ہی ہے

 

بشیر کہیے نذیر کہیے انہیں سراجِ مُنیر کہیے

جو سَر بَہ سر ہے کلامِ رَبیّ وہ میرے آقا کی زِندگی ہے

 

ثنائے محبوب ِ حق کے قرباں سُرورِ جاں کا یہی ہے عُنوان

ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیف سرمدی ہے

 

ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں

تمہارے دَر کی عظیم نسبت متاع ِ عظمت بنی ہوئی ہے

 

یہی ہے خاؔلد اَساسِ رحمت یہی ہے خاؔلد بِنائے عظمت

نبی کا عرفان زندگی ہے نبی کا عرفان بندگی ہے