گھٹاؤں سے فضا مخمور ہے صحنِ گلستاں
کی
الٰہی! لاج تیرے ہاتھ ہے اب عہد و پیماں کی
نظر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے نگہباں کی
عَنادِل کیا تمھیں کچھ فکر ہے اپنے گلستاں کی
میں اُن سے فاصلے پر اس لیے بیٹھا
ہوں محفل میں
پگھل جائے نہ میرا دل تپش سے حُسنِ عریاں کی
یہ گل اب پھیکے پھیکے سے مجھے معلوم ہوتے ہیں
تمھارے ساتھ ہی رونق گئی میرے گلستاں کی
جو ہیں سیراب پہلے سے اُنھیں کو جام
ملتا ہے
مجھے پھر تشنگی کیسے یہاں رِندِ پریشاں کی
جنابِ شیخ کا ظاہر بظاہر خوب ہے لیکن
حقیقت جانتا ہوں خوب میں پاکیِ داماں کی
بمشکل چند تنکے ہی ہمارے ہاتھ آئے
ہیں
بہاریں باغ باں نے لوٹ لیں
سارے گلستاں کی
مِلا مجھ سا نہ کوئی با وفا تو اب
یہ کہتے ہیں
وفا پیکر تو ریحاؔں تھا کہاں وہ بات ریحاؔں کی