آتش شوق آج جو ناز سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے ہو نہ ہو یار کا پیغام صبا لاتی ہے ماند پڑجاتی ہے تنویر مہ و انجم کی ان کی تصویر جب آنکھوں میں سما جاتی ہے آپ آتے ہیں جو بالیں پہ نقاب افگندہ اس کے معنی ہیں کہ در پردہ قضا آتی ہے چھین تو لیتی ہے دل ابر بہاری کی ادا آپ کی یاد مگر اور بھی تڑپاتی ہے مختصر داستاں مجھ تلخ نوا کی یہ ہے میری ہستی بھی مرے حال پہ جھنجلاتی ہے دل کی تسکین تو ہو جاتی ہے روتے روتے آتش شوق مگر اور بھڑک جاتی ہے کتنا تاریک ہے پہلو شب تنہائی کا ان کے ہوتے بھی طبیعت مری گھبراتی ہے یہ تو سمجھاؤ کہ کیا دیکھنے والے سمجھیں ذکر ہوتا ہے مرا تم کو حیا آتی ہے آگ لگ جاتی ہے دامانِ تحمّل میں خلیؔل عشق کے نام سے دنیا مری تھراتی ہے ۔۔۔
مزید
جستجو نگہت نہ تیری زلف کی گر چار سوگئی کس دھن میں پھر نسیم سحر کو بہ کو گئی پوچھا نہ تم نے حال دل بے قرار کا حسرت بھی اٹھ کے بزم سے شرمندہ روگئی وابستہ میرے دم سے یہ سب ہائے وائے ہے اٹھا جو میں تو دیکھنا سب ہاؤ ہُوگئی اے اشک تجھ سے بھی نہ ہوا دل کا کچھ علاج آنکھوں سے گر کے اور تری آبروگئی اللہ رے بے خودئ محبت کہ بارہا خود میری جستجو میں مِری جستجو گئی نظّاروں میں وہ لطف میسر نہیں رہا شاید کہ دلفریبئ ہر رنگ و بو گئی ساقی نے میرے نام پہ تشکیل بزم کی میخانے میری روح جو بہر وضو گئی آنا تھے اور نہ آیا ہمیں چین عمر بھر جانی تھی اور نہ ہم سے محبت کی خُوگئی سنتے ہیں مے سے توبہ کئے بیٹھے ہیں خلیؔل اب میکدہ سے لذتِ جام و سبو گئی ۔۔۔
مزید
رازِ زندگی ہر نفس کو ہم پیغامِ آخری سمجھا کئے زندگی کو مایۂ بے مائگی سمجھا کئے آسرا جینے کا تم کو جیتے جی سمجھا کئے جان دینے کو ہمیشہ زندگی سمجھا کئے دل کی بربادی کو ہم دل کی خوشی سمجھا کئے عمر بھر بس موت ہی کو زندگی سمجھا کئے الوداع اے عشرتِ فانی کہ آنکھیں کھل گئیں ہم فریب ِ زندگی کو زندگی سمجھا کئے آج عرضِ حال پر میرے توجہ خاص تھی گفتنی سنتے رہے ناگفتنی سمجھا کئے بےخودی کہتے ہیں جس کو موت ہے احساس کی موت کے احساس کو ہم بے خودی سمجھا کئے عشق میں کھوئے تو پہچانی حقیقت حسن کی اور دیوانے اسے دیوانگی سمجھا کئے کیا بتاؤں کیسی گزری بزم حسنِ یار میں میری سب سنتے رہے اور یار کی سمجھا کئے نفس کی ناکامیوں میں کامرانی ہے خلیؔل زندگی کا راز اہل دل یہی سمجھا کئے ۔۔۔
مزید
آرزوئے دید یا تو یہ ہو کہ تاب رہے دید کی مجھے یا یہ کہ چشمِ لطف سے دیکھے کوئی مجھے یارب عطا ہو ایسا سکون دلی مجھے غم کا ہو کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے شاید کہ راس آگئی کوئی خوشی مجھے میں زندگی کو روتا ہوں اور زندگی مجھے طے ہورہا ہے قصۂ طو لانئی حیات اب تو نہ دے فریب، غمِ زندگی مجھے مِل مِل کے رو رہے ہیں جو تاب و توانِ دل اے آرزوئے دید کہاں لے چلی مجھے غربت کی راہ میں جو بڑھایا کبھی قدم کچھ دور روتی آئی مری بیکسی مجھے کیا کیا نہ گل کھلائے غم روزگار نے تم ہی بتاؤ تم نے بھی پوچھا کبھی مجھے سب کچھ بھلا دیا ستم روزگار نے بھر بھی تمھاری یاد ستاتی رہی مجھے رکھتا جو جسم زار پہ دو چار دھجیاں دستِ جنوں نے اتنی بھی مہلت نہ دی مجھے غربت میں اب تو عیش بھی بھاتا نہیں خلیؔل ہائے وطن کی یاد کہاں آگئی مجھے ۔۔۔
مزید
شعلۂ عشق میرے جذبۂ عشق کی ادنیٰ سی یہ تاثیر ہے یاس ہے پہلو میں لیکن شوق دامنگیر ہے تجھ کو کس سے شکوۂ ناکامئ تدبیر ہے خود ترے ہاتھوں میں غافل خامۂ تقدیر ہے مایۂ جمیعت دل ہے پریشاں خاطری میں اسیرِ زلف ہوں وحشت میری جاگیر ہے زیست کیا ہے؟ اک طلسم کائناتِ رنگ و بو موت کیا ہے؟ اس طلسم خواب کی تعبیر ہے ہر مصیبت میں ہے مضمر راحت و آرام بھی ہاتھ میں دامانِ شب کی صبح کی تنویر ہے ہوش میں ہوتا تو کچھ راز حقیقت کھولتا اے سرورِ بے خودی یہ سب تری تقصیر ہے میں اِدھر مشاطۂ تدبیر سے مصروف ہوں اُس طرف حیرت زدہ آئینہ تقدیر ہے ہو نہ ہو بھڑکا ہے دل میں آج شعلہ عشق کا ورنہ کیوں ان آنسوؤں میں آگ کی تاثیر ہے کاٹئے اس دور کو گوشہ نشیں بن کر خلیؔل شورشیں برپا ہیں ہو سو، شورِ دار و گیر ہے ۔۔۔
مزید
عشق بے اختیار ہچکیوں کا شمار ہے یعنی آپ کا انتظار ہے یعنی فتنہ برپا ہے آج عالم میں دل بہت بے قرار ہے یعنی آنکھ اٹھتی نہیں ہے محشر میں فتنہ گر شرمسار ہے یعنی کس قدر سوگوار ہے دنیا زیست بھی ایک بار ہے یعنی مستئ چشم یار ارے توبہ شام ہی سے خمار ہے یعنی وہ بلانے سے بھی نہیں آتے حسن بااختیار ہے یعنی دہ پَہرَ ڈھل گئے مسرت کے ختم صبحِ بہار ہے یعنی دل دھڑکتا ہے بَلّیوں میرا ان کے دل کی پکار ہے یعنی سارے جلوے ہیں حسن کامل کے عشق بے اختیار ہے یعنی کس نے دل کا قرار لوٹ لیا کیوں سکوں ناگوار ہے یعنی پوچھنا کیا خلیؔل مضطر کا ایک تازہ شکار ہے یعنی ۔۔۔
مزید
غزل در نعت جس کے باعث کیا جہاں روشن اور خورشیدِ آسماں روشن مشرق و مغرب و جنوب و شمال دینِ احمدﷺ سے ہر مکاں روشن خوبی و حُسنِ مصطفائیﷺ سے حُسن و خوبی کا گلستاں روشن ہے فروغِ جمالِ احمدﷺ سے قصرِ ہستی کا تاب داں روشن شبِ اسرا میں اُن کے قدموں سے ہو گیا گُلشنِ جِناں روشن ہے وہ شرعِ منوّرِ نبویﷺ جس سے ہے بزمِ اِنس و جاں روشن نعت و اَوصافِ مصطفیٰﷺ میں رہے یا الٰہی! مِری زباں روشن ۔۔۔
مزید
غزل در نعت آب وصفِ صاحبِ کوثرﷺ سے شیریں کام ہے ماہیِ کوثر زبانِ مدح خواں کا نام ہے نعت و اَوصافِ جنابِ مصطفیٰﷺ جس میں نہ ہو وہ لب و دندان وہ کام و زباں نا کام ہے عَینِ عرفانِ خدا عَینِ جنابِ مصطفیٰﷺ آہوئے بے عیب اُس عَینِ صفا کا نام ہے رحمتِ عالَم کی اُمّت میں ہمیں پیدا کیا کیا مقامِ شکرِ خلّاقِ ذَوِی الاِکرام ہے یا الٰہی! میں بھی پہنچوں منزلِ مقصود کو کار سازِ بے کساں، اللہ! تیرا نام ہے جائے نومیدی نہیں درگاہِ ربّ العالمین وسعتِ رحمت یہاں مصروفِ خاص و عام ہے میں نہیں شاعر، مدیحِ صاحبِ لَوْلَاک ہوں ہم صفیرو! مجھ کو اپنے کام ہی کام ہے مغتنم ہے بس کہ دورِ مدح خوانی مدح خواں یہ زباں محشر تلک پھر عاطل و نا کام ہے کاؔفیِ بیمار کو وصفِ جنابِ مصطفیٰﷺ قوّتِ دل راحتِ جاں موجبِ آرام ہے ۔۔۔
مزید
بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے احباب کی نظر کے شرارے بدل گئے کہتے تھے ہر قدم پہ پکارو ملینگے ہم دردالم کے اب تو سہارے بدل گئے رہبر ہی اپنا رہزنِ دینِ نبی ہوا کتنے بڑے بڑے تھے منارے بدل گئے علمائے حق ہی ہوتے ہیں مطعون ہرجگہ تحریکِ سنیت کے شمارے بدل گئے جنگل ہے سون سان بیابان دل بھی ہے بازو و دست اب تو ہمارے بدل گئے جو حاشیۂ ذہن پہ آہی نہیں سکا لعل و گُھر صدف وہی ہیرے بدل گئے حزن و ملال عالمِ حسرت و یاس میں اعداء سے کیا گلا کہ ہمارے بدل گئے جن پر پہونچ کر دھوتے تھے داغِ غم و الم بحرِ کرم کے اب وہ کنارے بدل گئے دوشِ اُفق پہ آہ کو رکھتے ہو تم فراں نازو نگاہ و طرز کہ سارے بدل گئے۔۔۔
مزید
شاہ کون و مکاں مرتے دم آپ ہاں مجھ کو کلمہ پڑھائیں ، دعا کیجئے لے کے آغوش میں روح کو پھر ملک نظمِ بخشش سنائیں ، دعا کیجئے آل و اصحاب سے بھی محبت کریں ،شمعِ عشقِ نبی میں یہ روغن بھریں ، روح ِایمان کو اور روشن کریں ، قبر میں جگمگائیں دعا کیجئے ایک کثرت ہے ہم پر بھروسہ کئے راہ میں خار ہیں اور پتھر پڑے یا نبی آپ کا آسرا چاہئے اب نہ ہم لڑکھڑائیں دعا کیجئے جلنے والے جلیں مرنے والے مٹیں جشنِ میلاد کی خوب دھومیں مچیں آگئے آگئے مصطفے آگئے اپنا تن دھن لُٹائیں دعا کیجئے نعت انکی کہوں کیسے میں یا خدا، تیرا قرآن ہے ان کا مدح سرا ابن ثابت ہیں جامی ، رضا غوطہ زن ، ہم بھی کچھ چھینٹ پائیں دعا کیجئے مشغلہ نعت گوئی عطا کیجئے یا نبی اپنا عاشق بنا لیجئے فکر دنیا سے آزاد ہوں ذہن و دل گیت مدحت کے گائیں دعا کیجئے نعت انکی لکھوں جب بھی میں یا خدا میری تصحیح کریں حضرتِ شاہ رضا پھر یہ فرمائیں عشّاق میں جا۔۔۔
مزید
محض رخصت کونہ دیکھو عزیمت خوب کرنے دو سنو اب روح کو بھی تم ریاضت خوب کرنے دو یہ لمحے زندگی کے اب تمہارے واسطے ہی ہیں متاعِ زندگی سے اب تجارت خوب کرنے دو انہیں کے واسطے ہی ہم بنے اور یہ جہاں آیا فناوالوں بقا چاہو تو مدحت خوب کرنے دو جو تعریفِ بقا چاہو، تو سن لو عشق والوں سے رسولﷲ کی الفت ،محبت خوب کرنے دو لٹا کر جان و دنیا ہم تمہارے واسطے آئے نہ حائل ہو فرشتوں اب زیارت خوب کرنے دو اشدّأ علی الکفار گر تم سے نہ ہو پائے نہ روکو ظالموں ہم کو تو شدّت خوب کرنے دو چلو مانا کہ ہم ہی ان کے اعداء سے الجھتے ہیں ہمیں اپنے میں رہنے دو یہ فطرت خوب کرنے دو امام احمد رضا کے مظہرِ کامل کا مصرع ہے یہ شوقِ زندگی کیا ہے وہ رحلت خوب کرنے دو بروز حشر وہ آئیں تو عاصی جھوم کر بولیں ابھی جنت میں کیا جائیں زیارت خوب کرنےدو چلو بخشیں شرف دل کو حرم کے خار مہماں ہوں عجب صورت عجب معنیٰ میں دعوت خوب کرنے دو ار۔۔۔
مزید
عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے ہاں رضا چاہئے بس رضا چاہئے خاکِ میّت میری تجھکو کیا چاہئے خاکِ پائے نبی سے لقا چاہئے ان کے لطف و کرم میں کٹے زندگی اور محشر میں ظلِّ ردا چاہئے زندگی ساتھ چھوڑے میرا جس گھڑی آپ آجائیں بس اور کیا چاہئے اس جگہ کے شہنشاہ حسنین ہیں اک جہاں کو جہاں پر جگہ چاہئے مومنوں دشمنانِ نبی سے بچو روشنی قبر میں گر سدا چاہئے قائلِ بے بسی کو ملیں بے بسی ہم کو لطفِ حبیبِ خدا چاہئے مانگ لو مانگ لو دو جہاں کی بقا مسکِ شاہ احمد رضا چاہئے اے طبیبوں ہٹو دور ہو تم ذرا عشق ہے یہ میرا کیوں دوا چاہئے حشر میں ہم پکاریں گے جب یا نبی آپ آکر کہو کیا بتا چاہئے اے فرشتوں ہٹو اُمتی ہے میرا اس پہ حق ہے میرا تم کیا چاہئے دیکھ کر یہ سماں متقی بول اُٹھیں عاصیوں ہم کو بھی یہ خطا چاہئے کیاریانِ جناں صبر ان میں کہاں اس جہاں میں ہی پائے شہا چاہئے تیری فاران بعدِ جناں التجا مجھ کو کوئے نبی کا۔۔۔
مزید