چاہنے والوں کو وہ اپنے سسکتا چھوڑ کر
اُٹھ گئے دامن جھٹک کر سب کو روتا چھوڑ کر
مَے کدہ بھی چھوڑ کر اور جام و مینا چھوڑ کر
میر
ِمَے
خانہ چلا رِندوں کو پیتا چھوڑ کر
اِک برس سے زیادہ گزرا ہے تمھارے ہجر میں
پھر
بھی غم جاتا نہیں دل کو تمھارا چھوڑ کر
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کام باقی تھا
ابھی
اور کوئی چل دیا اُس کو اَدھورا چھوڑ کر
اے ولیِّ با خدا بس ایک ہے
تم سے سوال
یہ
بتاؤ تم نے ہم کو کس پہ چھوڑا چھوڑ کر
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہوگئے سب مضطرب
جب بریلی سونی کرکے وہ چلا تھا چھوڑ کر
وہ رضائے مصطفیٰ ابنِ رضا مُرشِد
مِرا
سب کا جو تھا مہرباں اپنا پرایا چھوڑ کر
اُن کی الفت میں مچلتا ہی رہا وہ
عمر بھر
اِک نظر بھی جس نے دیکھا اُن کو کینہ چھوڑ کر
یہ اَلَم کی داستاں، ریحاؔن! اب کس سے کہیں
جو شریکِ غم ہمارا تھا سدھارا چھوڑ کر