ادائے مصطفیٰ تم ہو رضائے مصطفیٰ تم ہو
ہر اِک اَنوار سے اے مقتدا احمد رضا تم ہو
شبیہِ
حضرتِ غوث الوریٰ ابنِ رضا تم ہو
جہانِ
علم کے مُفتیِ اعظم مصطفیٰ تم ہو
ولی
ابنِ ولی زندہ ولی ہو پارسا تم ہو
سراپا
زُہد ہو اور پیکرِ صدق و صفا تم ہو
تمھارے
ظاہر و باطن پہ نازاں پارسائی ہے
جو
خیرِ اَتقیا تم ہو تو نازِ اَصفیا تم ہو
پِلا دو جامِ نوری اپنی نورانی نگاہوں سے
کہ نوری مَے کدے کے میر، میرے ساقیا تم ہو
مِری دنیا و دیں کا ما حصل الفت تمھاری
ہے
قیامت میں مِرے ماویٰ و ملجا آسرا تم ہو
کسی کو کیوں سناؤں داستاں اپنے مصائب کی
مِرے دُکھ کی دوا تم ہو مِرے مشکل کشا تم ہو
مجھے توفیقِ صبر و
استقامت۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیکرِ صبر و رضا تم ہو
(مکمل شعر دستیاب نہیں ہو سکا)
اِسی میٹھی نظر سے دیکھ لو پھر اپنے منگتے کو
کہ اس کی آرزو، حسرت، تمنّا، مدّعا تم ہو
تمھاری ذات میں جلوے رضا، حامد رضا کے ہیں
مِرے حامد رضا تم ہو مِرے احمد رضا تم ہو
وہ میرے سامنے ہیں پوچھتے ہیں آرزو
کیا ہے
مِرے مولیٰ زباں دے دے کہ کہہ دوں مُدَّعا تم ہو
سخی تم ہو میں سائل ہوں ولی تم ہو میں عاصی ہوں
مریضِ دردِ
عصیاں ہوں دوا تم ہو شفا تم ہو
رضا و حامد و نوری کا
گلشن ہے بہاروں پر
شگفتہ اِس چمن میں خیر سے ریحاؔں رضا تم ہو